پروپیگنڈا کیا ہے۔ یہ کیفیت قرونِ اولیٰ اور قرونِ وسطیٰ کے سائنس دانوں میں بہت ہی کم دیکھی جاتی ہے۔ اس کے لئے ایک سادہ سی مثال سامنے آتی ہے جو ان کی ذہنی آزادی کی دلیل ہے۔ جب عربوں نے جالینوس کے یونانی طریق علاج کو اپنایا تو انہوں نے دواوٴں کے یونانی سسٹم سے ٹنکچروں کو بالکل خارج کردیا۔جڑی بوٹیوں کے ٹنکچروں کی بجائے انہوں نے معجونیں ، چٹنیاں ، مربے اور شربت وغیرہ تیار کرکے نئی راہیں نکالیں ۔ ان میں سے بعض چیزیں زمانہ حال کے جدید ایلوپیتھک فارما کو پیا اور کوڈیکٹس میں موجود ہیں ۔ لیکن بیسویں صدی کے مسلمانوں نے مغربی طب کو اپنایا تو ان میں کوئی ادنیٰ ترمیم کرنے کی جرأت موجود نہ تھی۔ انہوں نے عیسائیوں کی طرح متروک ٹنکچروں کو چپ چاپ قبول کرلیا۔ ہمارے ڈاکٹر اور دوا ساز ابھی تک الکوحل تک ترک کرنے کا اقدام نہیں کرسکے، حالانکہ الکوحل کے مقاصد پورے کرنے کے لئے مسلمان اطبا قرنوں پہلے دوسری موٴثر تدبیریں پیش کرچکے ہیں ۔“ ( الاعتصام:جنوری ، فروری ۲۰۰۴ء) وفات آخری سالوں میں آپ مختلف عوارض کا شکار رہے۔ بعض دن تو ان پربہت کڑے گزرے۔ ایک سال سے ان کی صحت قدرے سنبھل چکی تھی، لیکن کمزوری ہنوز باقی تھی۔انہی دنوں جماعۃ الدعوۃ نے علامہ اقبال ٹاؤن لاہور کی ایک کوٹھی میں منتقل ہونے کی پیش کش کی۔ جسے انہوں نے قبول کر لیااو راپنی لائبریری سمیت وہاں چلے آئے۔ آخری سال ان کی لائبریری سے زیادہ تر استفادہ مجلہ الدعوۃ سے متعلقہ حضرات کرتے رہے۔ان کی وفات کے بعد یہی لائبریری جو ان کی متاعِ حیات تھی، مسجد قادسیہ، چوبرجی لاہور میں منتقل کردی گئی۔ جن دِنوں نوری صاحب علامہ اقبال ٹاوٴن میں رہائش پذیر تھے تو اکثر اوقات میں اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا رہتا اور اُن کے کچھ ضروری کام بھی سرانجام دیتا، مگر ایک بار جب نظر اُن کے کمرے کے دروازے پرپڑی تو اچانک دل جیسے پھٹ سا گیا، قدم وہیں منجمد سے ہوگئے اور کچھ پوچھ پانے کی بھی سکت نہ رہی گویا زبان نے لبوں کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ کیا دیکھتا ہوں ، دروازے پربڑے مارکر سے اپنی لکھائی میں جلی حروف میں کچھ قرآنی دعائیں : |