ایک خواہش؛ جس کی ہمیشہ تڑپ رہی! نوری صاحب کی ہمیشہ سے یہ خواہش اور دعا رہی جو انہوں نے اپنی وفات سے چند دن پہلے اپنے ایک تحقیقی مضمون کے ذریعے ہفت روزہ ’الاعتصام‘کوبھیجی۔ ہم اُنہی کے الفاظ میں آپ تک پہنچانے کی سعادت حاصل کررہے ہیں : ”افسوس اس بات کا ہے کہ جو تحقیقات موجودہ زمانے میں ہورہی ہیں ، ان میں مسلمانوں کا کوئی قابل ذکر حصہ نہیں ہے۔ اور تو چھوڑئیے، حال ہی میں بحیرہٴ مردار سے برآمد شدہ طوماروں اور پلندوں Dead Sea Scrolls تک سے مسلمانوں نے کوئی دلچسپی نہیں لی، حالانکہ تاریخی ومذہبی ریکارڈ کے اس دفینہ کی برآمدگی ان کے گھر کا معاملہ تھا۔ تحقیقاتی سرگرمیوں سے مسلمانوں کی یہ بے تعلقی غیر مسلم محققین کوموقع دیتی ہے کہ وہ اپنے لادینی یا مذہبی نقطہ ہائے نظر یا سیاسی اور سامراجی مفاد کے مطابق جس طرح چاہیں کسی دریافت شدہ چیز کی توجیہ کریں اور جن نامطلوب اجزا کو چاہیں ، بالکل نظر انداز کرجائیں ۔ ذرا سوچئے کہ اب جب کہ غیر مسلم بلکہ بسا اوقات اسلام دشمن اور مذہب دشمن محققین کے اخذ کردہ نتائج بھی قرآن کی صداقت کو واضح کرنے میں معاون ہوتے ہیں ، اگر خود مسلمان آگے بڑھ کر سائنسی اور تاریخی تحقیق کے میدانوں میں اُتریں تو وہ زیادہ صحیح علمی نقطہ نظر اور جذبہ ایمانی سے کام لے کر مطالعات و مشاہدات کو ’قرآنی حقائق‘ کے تابع ثابت کرسکتے ہیں ۔ وہ اگر خود براہِ راست ابھی کسی وسیع تحقیقی مہم کا آغاز نہیں کرسکتے تو کم از کم دوسروں کے فراہم کردہ مواد اور معلومات کا جائزہ تو لیں ، دوسروں سے مل کر کام کرتے ہوئے اپنا نقطہ نظر استعمال کریں اور ان کی غلطیوں پر گرفت کریں ۔ لیکن مشکل یہ بھی تو ہے کہ جہاں موجودہ زمانے کے عام مسلمان، سائنس کو دوسروں کی جاگیر سمجھے ہوئے ہیں ، وہاں مسلمان سائنس دانوں کو ذہنی غلامی کا روگ لگا ہوا ہے۔ اور وہ ہر مفروضے، نظریے اور قانون پر بے چون و چرا ایمان لے آتے ہیں جو غیر مسلم دماغوں نے مرتب کرکے ان کے سامنے رکھ دیا ہو۔ بلکہ بسا اوقات وہ ان باطل فلسفوں کے بھی پرجوش وکیل بن جاتے ہیں جو مغرب کی ملحدانہ ذہنیت نے قیاس سے کام لے کر سائنس کی تحقیقات کی اساس پر کھڑے کئے ہیں ، اور پھر ان کے حق میں اونچی علمی سطح پرنہایت زبردست |