اور اعلیٰ ظرفی اس انسان کی نمایاں خصوصیات تھیں ۔ ان کے بارے میں جناب حافظ سعد اللہ سینئر ریسرچ آفیسر دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری و ایڈیٹر سہ ماہی منہاج،لاہورکی زبانی سنیے : ”ان کو نام و نمود کا بالکل اشتیاق نہ تھا، ان کے اخلاص کا قطعاً انکار نہیں کیاجاسکتا۔ لالچ ان کے قریب بھی نہ پھٹکتا تھا۔ ’منہاج‘ کمیٹی کے ممبر ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی اعزازیہ وغیرہ طلب نہیں کیا تھا۔ وہ ہر مضمون بہت محنت اور لگن سے لکھتے تھے اور اس مضمون کا چاروں طرف سے احاطہ کرنے کی جستجو میں لگے رہتے تھے۔“ نہایت سادہ خوراک، سادہ لباس اور عام سا طرزِ زندگی اپنا رکھا تھا۔ اس جدت پسندی کے دور میں بھی کپڑے بغیر استری کے پہن لیتے ، کسی پر خواہ مخواہ بوجھ نہیں بنتے تھے۔ فارغ وقت میں قرآن کی تلاوت سنتے۔ قوتِ یاد داشت جہاں اللہ تعالیٰ نے نوری صاحب کو دیگر بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا وہاں قوتِ یاد داشت بھی بلا کی عطا کر رکھی تھی اور اس حقیقت کا انکشاف مجھے اس وقت ہوا جب عربی فاضل کے امتحان میں مجھے ’عثمان ابن جنی‘ کے عنوان پر مقالہ لکھنا پڑا اور میں نے اس سلسلے میں نوری صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے فوراً چند کتب کے نام بمعہ مصنّفین اور ان کے متعلق بنیادی معلومات زبانی فراہم کر دیں حالانکہ عثمان ابن جنی کے نام سے بھی اکثر علما واقف نہیں اسی طرح ان کی قوتِ یاد داشت کی تعریف معروف وکیل ظفر علی راجا صاحب ان الفاظ میں کرتے ہیں : ” کسی مسئلے کے متعلق علما کا موقف تلاش کرنا اور حوالے یا د رکھنا دورِ حاضر میں نوری صاحب پرختم تھا جب بھی ہمیں کوئی مسئلہ در پیش ہوا اور ہم نے اس کے متعلق مختلف ائمہ کرام کا موقف دیکھنا چاہا تو نوری صاحب سے رابطہ کیا تو وہ بہت سی کتابوں کے نام،مصنفوں کے نام، صفحات نمبر اور مختلف ائمہ وفقہا کے موقف (کہ کون جواز دیتا ہے ،کون مکروہ سمجھتا ہے اور کون تحریم کا قائل ہے) زبانی فراہم کر دیتے اور جب ہم وہ حوالے کتب سے دیکھتے تو بالکل یہی کچھ ہوتا جس پر ہم ان کی قوتِ یاد داشت پر بہت حیران ہوتے۔“ |