قائد اعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ کیحوالہ سے وہ وضاحت پیش کیا کرتے کہ انہوں نے قیام پاکستان کے وقت ہی اس بات کا اعلان کردیاتھاکہ ہمارے پاس اللہ کا مقرر کیا ہوا آئین موجود ہے لہٰذا کسی پارلیمنٹ یا اسمبلی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کوئی قانون بنانے کی جرأت کرے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس قانون کو لاگو کیا جائے یعنی اس پر عمل کیا جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو اس قانون شرعی کے تحت ہی سزائیں دی جائیں ۔ جرأت ِ اظہار استاذ محترم جناب ریاض الحسن نوری کھلی کتاب تھے وہ قرآن و سنت کے مطابق اپنا راجح موقف ہر جگہ خوب ڈٹ کر بیان کرتے تھے، خواہ تقریر کا میدان ہو یا تحریری۔ ایک مرتبہ جنگ فورم میں پردے کے موضوع پر ان کا آمنا سامنا عاصمہ جہانگیر سے ہوا تو انہوں نے بھرپور انداز میں بے حجابی کی خرابیاں اور پردے کے فوائد، ثمرات اور فلسفے پر علمی اور سائنسی انداز میں روشنی ڈالی جب کہ عاصمہ جہانگیر جیسی بے باک عورت کا دباوٴ اور کسی قسم کی جھجک محسوس نہ کی۔ اسی طرح وہ ’مجلس تحریک کارکنانِ پاکستان‘ کے زیر اہتمام ’الحمرا ہال‘ کی ایک کانفرنس میں شریک تھے جس میں مختلف زعمااور سیاستدان اظہارِ خیال کررہے تھے جن میں سے سندھ کی ایک پارٹی کا ایک نمائندہ رسول بخش پلیجو جب تقریر کرنے مائیک پر پہنچاتو اس نے قائداعظم کے حوالے سے کہا کہ وہ اس ملک کو ’سیکولر سٹیٹ‘ بنانا چاہتے تھے، جس پرنوری صاحب سے رہا نہ گیا، اُٹھ کھڑے ہوئے اور ببانگ ِدُہل اس کی تردید کی اور کہا : ”تم جھوٹ بول رہے ہو۔ میرے پاس قائد اعظم کا حلف نامہ موجود ہے جس میں قرآن کی آیات پر حلف لیا گیا ہے اور ان کے ایسے فرامین بھی موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس ملک کو سیکولر نہیں بلکہ ایک اسلامی فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے وگرنہ ’دوقومی نظریہ‘ کا کوئی جواز نہیں رہتا۔“ عاجزی و اِنکساری میں اپنے مشاہدے کی روشنی میں کہتا ہوں کہ اتنا بڑا عالم اور اتنا منکسر مزاج میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ بہت سادہ طبیعت، سادہ لباس، وضع داری، مہمان نوازی، خوش اخلاقی،خلوص |