محدث کے شعبہ رسائل وجرائد کے تحت تیار کرکے اسی شمارے میں شائع کی جارہی ہے۔ آپ کے وسعت ِمطالعہ کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ کا تذکرہ بھی یہاں مناسب ہوگا۔سقوطِ ڈھاکہ کے بعدجناب جاوید احمد غامدی صاحب نے ۲۹/جے ماڈل ٹاؤن،لاہور میں ’دائرۃ الفکر‘ کے نام سے اپنے کام کا آغاز کیا تو نوری صاحب کو بھی اپنی ’تحریک ِاسلامی‘ میں شمولیت کی دعوت دی۔ان دنوں غامدی صاحب کی یہ عادت تھی کہ وہ اپنے وسعت ِمطالعہ کا غیرضروری تذکرہ کیا کرتے او راپنے علمی کارناموں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے۔ نوری صاحب ان کی باتیں سنتے تو احساس ہوتا کہ وہ مبالغہ آمیز ہیں ۔ چنانچہ حقیقت شناسی کے لیے نوری صاحب گاہے بگاہے بسا اوقات بعض فرضی کتب کے حوالہ سے بھی نئی نئی معلومات کا غامدی صاحب سے تذکرہ کرتے تو غامدی صاحب داد دیتے ہوئے کہتے کہ میں نے بھی ان کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔ نوری صاحب تو جانتے تھے کہ یہ کتب فرضی ہیں ، اس کے باوجود ان کے مطالعہ کا اقراران کے لئے غامدی صاحب کے مطالعہ کی حقیقت کھولنے کے لئے کافی تھا۔ غامدی صاحب کی شخصیت کا یہ پہلو کھلنے پر نوری صاحب ان سے پیچھے ہٹ گئے اورتحریک ِاسلامی سے اُنہوں نے اپنی راہیں جدا کرلیں ۔اس واقعے کا ذکر وہ اپنی مجلسوں میں کیا کرتے اورراقم الحروف نے خود یہ واقعہ ان سے سنا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی سچی خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور ریاکاری سے محفو ظ رکھے۔ قانون سازی کے متعلق اُن کا نقطہ نظر آپ قرآن وحدیث کو اسلامی دستور قرار دیتے اور مروّجہ ملکی دستور کو ذیلی حیثیت دیا کرتے تھے بلکہ بنیادی طور پر وہ تفصیلی قانونی دفعات کے انداز کو پسند نہ کرتے کہ اصل قانون تو وہ ہے جو کتاب وسنت کی الہامی تعبیر کی صورت موجود ہے۔ اللہ و رسول نے انسانیت کے لئے ہر قسم کا قانون مرتب کررکھا ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ قرآن وحدیث سے بہتر کامل واکمل شریعت کی تعبیر ممکن نہیں ۔ ہمارے قانونی الفاظ ہمیشہ انسانی حقوق وفرائض کے بارے میں کوتاہیکا شکار رہتے ہیں بھلا کوئی پارلیمنٹ ہو یا حکومت اللہ تعالیٰ کی کلام سے بہتر لا سکتی ہے ۔ ہمارا کام تو صرف شریعت کو سمجھنا ہی ہے!! |