ڈائری ان دنوں گم تھی، چنانچہ ان کے جنازہ کی ان کے احباب کو اطلاع نہ دی جا سکی۔ ان کے قریبی دوست حافظ عبد الرحمن مدنی بھی ان دنوں حج کے سفر پر تھے۔ اگرچہ وفات سے اگلے روز اخبارات میں چھوٹی سی خبر شائع ہونے کے بعد مختلف دینی حلقوں نے ان کی رہائش گاہ پر رابطہ کیا تو ان کی وفات کی تصدیق ہوئی۔ چنانچہ اکثر لوگ وفات سے اگلے روز تعزیت کے لئے پہنچے۔ خدامِ علم ودین حضرات کی یہ کسمپرسی کہ ان کے دینی ورثہ کو سنبھالنے والاتو کجا ان کی وفات پر ان کی مغفرت کی دعا کرنے والا کوئی شخص بھی موجود نہ ہو، کتنا بڑا المیہ ہے۔جس کی ملک وملت کو احساس دلانے کی ضرورت ہے؟ ایک عظیم سکالر کی وفات اور میڈیا کی ستم ظریفی اسلامی میڈیاجو کسی مسلم ملک کی عمارت کا بنیادی ستون ہوتا ہے، جہاں اُس کا مقصد حکومت کی درست پالیسیوں سے عوام کو آگاہ کرنا منفی پروپیگنڈہ کا توڑ کرنے کے علاوہ عوام کے جذبات کو حکومتی ایوانوں تک پہنچانابھی ہو تا ہے، وہاں اسلام اور مسلمانوں کی غیرت و حمیت کا خیال رکھنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے ، مگر نوری صاحب کی وفات پر اس اسلامی میڈیا کا کردار ’ناقابل معافی‘ ہے۔ آئیے نوری صاحب کے داماد اعجاز صاحب سے سنتے ہیں : ”ہمارے ملک میں اگر کوئی کنجر (ٹی وی و فلمی اداکار) مرجائے او راس کے تن غلیظ سے یہ مقدس مٹی پاک ہوجائے تو ٹی وی ہو یا اخبار، رسالہ ہو یا کوئی میگزین فحاشی و عریانی کو فروغ دینے والے تمام عناصر حرکت میں آجاتے ہیں ۔ کئی کئی ہفتوں تک نہ صرف خبریں چھپتی ہیں بلکہ ان کے کارناموں پر مشتمل رسائل وجرائد مخصوص نمبرروزناموں کے خاص ایڈیشن تک چھپتے جو ان کی شان میں قصیدے پڑھتے اکتاتے نہیں ، ان کے فحش اور بے ہودہ کارنامے جب تک زبان زد عام ہونہیں جاتے الیکٹرک میڈیا خاموش نہیں ہوتا تب بھی وہ سمجھتے ہیں کہ ابھی ”حق تو یہ تھا کہ حق ادا نہ ہوا۔“ مگر اتنے عظیم سکالر کی وفات پر ہمارا ملکی میڈیا بالکل خاموش رہا۔ ٹی وی والے تو خیر! اس قسم کی خبر کو معیاری ہی نہیں سمجھتے البتہ ایک دو اخبارات نے ’فرضِ کفایہ‘ ادا کرتے ہوئے ’یک کالمی سرخی‘ وہ بھی کسی کونے میں لگا رکھی تھی۔ اب چونکہ یہ ’خبر غم‘ موٴثر طریقے سے پھیل نہ سکی، شاید یہی وجہ تھی کہ بہت کم احباب کے |