سزاوٴں کا فلسفہ اور طریقہ کار پرروشنی ڈالی جس سے وہ لوگ بہت مستفید اور محظوظ ہوئے۔ تصنیف و تالیف کون سا ایسا مسئلہ ہوتا تھا جو سامنے آیا نہیں اور اس کے متعلق نوری صاحب کا قلم حرکت میں نہ آگیا ہو، آپ نے مختلف اہم اور نازک موضوعات پر قلم اُٹھایا اور اپنی مستند اور مدلل تحریر سے بہت جلد اہل علم میں نمایاں مقام بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ شروع شروع میں تو انہوں نے دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری کے سہ ماہی ’منہاج‘ کے لئے لکھا مگر یہ دائرہ محدود نہ رہا بلکہ ملک کے دیگر اہم اور تحقیقی جرائد و رسائل تک پھیلتا چلاگیا ۔ آپ ’منہاج‘کی مجلس ادارت کے بھی کئی سال رکن رہے۔ ساتھ ساتھ روزانہ اخبارات کے لئے بھی مفید مضامین لکھتے اور ان کے مذاکروں میں بھی شریک ہوتے۔ اس امر کا تذکرہ مناسب ہوگا کہ جناب نوری صاحب اپنی غیرمعمولی دینی تڑپ کے باعث ہرموضوع کے بارے میں غور وفکر کرتے رہتے اور جب ان کی آرا کی اشاعت کا کوئی بہانہ ملتا تو اس سے ضرور فائدہ اٹھاتے ۔ایسا کم ہی ہوا کہ انہیں کسی نے لکھنے کو کہا او رانہوں نے اس کو بیسیوں بلکہ سینکڑوں صفحات پر مشتمل تحریر نہ دی ہو۔ نوری صاحب بنیادی طور پر مراجع ومصادر کے آدمی تھے اگرچہ نکتہ رسی بھی خوب کرتے لیکن جہاں تک مواد کو بہتر ترتیب دینے یا استدلال کی کڑیاں ملانے کی بات ہے تویہ کام زیادہ تراشاعتی اداروں کو کرنا پڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے بیسیوں مقالات زیورِ طبع سے آراستہ نہیں ہوسکے اورآ ج تک مختلف اداروں میں اشاعت کے انتظار میں ہیں ۔ جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ حوالہ جات کو جمع کرنے او ردلائل کی نکتہ رسی میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اسی بنا پر اکثر بڑے محققین آپ کے پاس آتے رہتے اور آپ سے ایسا مواد لے کر ان کو خود ترتیب دیا کرتے۔ روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے آپ کے مضامین کی زیادہ ترنوعیت ایسی ہے جو در حقیقت سینکڑوں صفحات کا اقتباسات پر مشتمل ہوتے ۔ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب ان کی وفات پر اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں : |