Maktaba Wahhabi

130 - 142
ذریعے تحقیق کے مختلف امکانات کا جائزہ لینے کے لئے آپ تشریف لاتے رہتے۔ اسلامک کمپیوٹنگ کے حوالے کے آپ اس قدر مشتاق تھے کہ اس موضوع پر لاہور میں کوئی بھی پروگرام ہوتا، آپ اس میں شرکت کرتے۔ مدیر محدث (حافظ حسن مدنی) سے آپ کا اس بارے میں اکثر رابطہ رہتا۔ اس دلچسپی کی بنیادی وجہ غالباً یہی تھی کہ کمپیوٹر سی ڈیز میں مراجع بڑی آسانی سے مل جاتے ہیں ۔اور ظاہر ہے کہ نوری صاحب مراجع ومصادرکے ہی آدمی تھے۔ ذوقِ تدریس و طریقہٴ تدریس جب میں جامعہ لاہور الاسلامیہ کے فائنل اور پری فائنل ایئر کا طالب علم تھا تو جامعہ کے ادارۂ تعلیم نے ’قرآن اور سائنس‘ کے موضوع پر جمعرات کو بخاری و مسلم کے پیریڈز کی جگہ ریاض الحسن نوری صاحب کے ہفتہ وار لیکچرز کا اہتمام کیا۔ یقینا یہ اقدام باقی تمام مدارس اور جامعات کے لئے عمدہ نمونہ بھی تھا کہ دینی یدرسہ سے فارغ ہونے والا عالم دین صرف علومِ شرعیہ اور عربیہ کا ماہر نہ ہو بلکہ دورِ حاضر کے جدید مسائل خصوصاً سائنسی نظریات اور قرآنی کمالات کوبخوبی سمجھتا ہو۔چنانچہ اس بات کا ہم نے مشاہدہ کیا کہ انہیں بھی ہر اچھے استاد کی طرح یہ تڑپ ہوتی تھی کہ میرا تمام علم میرے طلبہ میں منتقل ہوجائے۔ ہم دیکھتے تھے کہ وہ اپنے لیکچر کی بھرپور تیاری کرکے آتے اور باقاعدہ انگریزی رسائل ’نیوزویک‘، ہفت روزہ ’ٹائم‘ اور خصوصا ً برٹنڈرسل و دیگر مغربی مفکرین کے حوالے ڈھونڈ کر لاتے اور ہماری دلچسپی بڑھانے کے لئے اور تدریس کا حق ادا کرنے کے لئے سلائیڈ پروجیکٹر اور اوور ہیڈ پروجیکٹر کا استعمال بھی کرتے، جس سے طلبہ بہت غور اور انہماک سے ان سے فائدہ اٹھاتے۔ ان کے طریقہٴ تدریس کی تعریف کچھ ایسے لوگوں نے بھی کی تھی جو غالباً ۱۹۹۵ء میں سوویت یونین کی آزاد کردہ اسلامی ریاستوں سے ٹریننگ کے لئے پاکستان آئے تھے۔ ان ریاستوں میں عدلیہ سے وابستہ ان افراد نے جامعہ لاہور الاسلامیہ اور مجلس التحقیق الاسلامی کے کئی پروگراموں میں شرکت کی۔ یہ وفد’ سنٹرل جیل ٹریننگ سٹاف انسٹیٹیوٹ ‘کے دورے پر تھا کہ پرنسپل جناب ڈاکٹرعبدالمجید اولکھ صاحب نے ریاض الحسن نوری کو’اسلامی سزاوٴں کے نظام‘ پر خصوصی لیکچر دینے کے لئے دعوت دی۔نوری صاحب نے بھرپور انداز میں اسلامی
Flag Counter