Maktaba Wahhabi

127 - 142
جمع کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں جب وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں آیا تو ہم نے ان کا نام بطورِ جج پیش کیا مگر حکومت کیGood Book میں نہ ہونے کی بنا پر اُنہیں نہ لیا گیا۔“ لاہور ہائی کورٹ کا ایک مسجد کے انہدام پر تاریخی فیصلہ یہ واقعہ ہم اُس مقدمہ کے فیصل جناب جسٹس (ر)میاں نذیر اخترصاحب کی زبانی پیش کرتے ہیں : ”علامہ ریاض الحسن نوری صاحب ملک کے ایک قابل قدر اور عظیم سکالر تھے، ان کی وفات اُمت ِمسلمہ کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے، اُ نہوں نے اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے تبلیغ دین کا فریضہ بطریق احسن انجام دیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے بہت سے اہم مقدمات میں فیڈرل شریعت کورٹ اور عدالت ِعالیہ کی رہنمائی فرمائی۔ خصوصاً جب میں بطورِ جج لاہور ہائیکورٹ فرائض انجام دے رہا تھا، اس دوران ضلع کچہری لاہور کی مسجد کے انہدام کے خلاف رٹ پٹیشن نمبر 9487/1992 سماعت کے لئے پیش ہوئی۔ اس مقدمہ میں بعض انتہائی اہم اور پیچیدہ نکات درپیش تھے۔ فریقین اور عدالتی وکلا کی عمدہ بحث کے باوجود بعض نکات پر گہری تحقیق اور مزید وضاحت کی ضرورت تھی جس پر میں نے علامہ ریاض الحسن نوری صاحب کو بطور (Amicus Curioa)… عدالتی معاون تشریف لانے کی دعوت دی، وہ تشریف لائے اور انہوں نے اپنی علمی استعداد اور فقہی مہارت پر ہمیں حیران کردیا۔ دن رات سخت محنت کرکے حوالے پیش کرتے۔ مزید وضاحت کے لئے میرے چیمبر میں بھی تشریف لاتے اور نہایت ٹھوس اور مستند دلائل مہیا کرتے۔ جن سے مجھے رفتہ رفتہ ان تمام فقہی اور قانونی نکات میں شرحِ صدر نصیب ہوگیا تو اللہ کے فضل و کرم سے اور علامہ نوری صاحب کی محنت شاقہ سے میں ایک صحیح اور راجح فیصلہ کرنے کے قابل ہوا اور میں نے اپنے فیصلے میں بھی اُن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ ”میری جانب سے علامہ ریاض الحسن نوری صاحب خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے اپنی ذاتی لائبریری سے عدالت کو بڑی تعداد میں نادر کتب مہیا کیں اور جن کی عالمانہ معاونت کا مقدمہ کو حل کرنے میں بہت بڑا حصہ ہے۔“
Flag Counter