صاحب کو پیش ہونے کو کہا۔ نوری صاحب تیار ہوئے اور کورٹ میں اپنے دلائل اور حوالہ جات یوں پیش کئے کہ اے کے بروہی بوکھلا اٹھے اور لاجواب نظر آنے لگے۔ اس وقت کے شریعت کورٹ کے چیف جسٹس گل محمد صاحب نوری مرحوم کے علمی ، عقلی اور سائنسی دلائل سے بہت متاثر ہوئے۔ فیصلہ پینل کے حق میں ہوا اور ریاض الحسن نوری صاحب کو لائف ٹائم Jurist Consultant مقرر کرلیا گیا اور انہیں باقاعدہ تعریفی خط لکھا گیا۔ ٭ پھر سپریم کورٹ میں سود کے خلاف ایک رٹ دائر کی گئی جس کی پیروی جماعت ِاسلامی کا مقرر کیا ہوا ایک پینل کررہا تھا جس کے سربراہ جناب محمد اسماعیل قریشی صاحب تھے اس میں ریاض الحسن نوری صاحب بطورماہر شریعت وفقہ موجود تھے ۔ اس کی تفصیلات جناب محمداسمٰعیل قریشی کی زبانی سنیے: ”جب ہم نے سپریم کورٹ میں پیش ہونا تھا، ریاض الحسن نوری صاحب کی طبیعت بہت ناساز تھی مگر اس کے باوجود وہ ہم سے پیچھے نہ رہے اور اپنی قیمتی کتابوں کے ساتھ وہ سپریم کورٹ میں حاضر ہوئے اور اپنے علمی و فنی دلائل سے ہمارے بلکہ اسلامی موقف کواستحکام بخشا جس سے فیصلہ ہمارے حق میں ہوا مگر حکومت کے بعض تاخیری اور لایعنی بہانوں کی بنا پر لاگو نہیں ہوسکا۔ اس کے علاوہ نوری صاحب قانونِ تحفظ ِناموسِ رسالت، عورت کی دیت، بھٹے والوں کا کیس اور حدود آرڈیننس کے علاوہ بھی بہت سارے مقدمات میں عدالت کی معاونت کرتے رہے۔ وہ ایک بہت اچھے انسان اور ملنسار مزاج رکھتے تھے۔ ان کے پاس تفسیر، حدیث، فقہ، فلسفہ، عقائد، الٰہیات اور قرآن و سائنس پر کتب کا نایاب ذخیرہ موجود تھا، اُنہیں کتابوں سے بہت محبت تھی۔ وہ عام طور پر کسی کو کتاب نہیں دیتے تھے مگر جب بھی ہمیں ضرورت پڑی تو ان کی لائبریری ہمارے لئے حاضر ہوتی تھی۔ وہ ہماری شریعت کونسل کے بھی ممبر تھے اور رابطہ عالم اسلامی سے بھی وابستہ رہے۔ ادارۂ محدث کی سرپرست ’اسلامک ریسرچ کونسل‘ میں آپ بطورِ رکن رکین باقاعدگی سے شرکت کرتے، اور اپنی علمی تحقیق سے نوازتے۔اسی طرح نیپا NIPA میں بھی انہیں لیکچرز کے لئے بلایا جاتا تھا۔ جب بھی کوئی ایشو کھڑا کیا گیا، وہ اُس پر چونکے اور ان کا قلم حرکت میں آیا۔ ان کی نظر ماشاء اللہ قدیم و جدید ہر مسئلہ پر ہوتی تھی۔ انہیں کتابیں |