محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دی تھیں ۔ چنانچہ یہی مشن ، یہی جذبہ اور ماٹولے کر انہوں نے اپنے کام کا آغاز کیا اور مرتے دم تک قرآن و حدیث کی صداقت ثابت کرنے کے لئے اپنی بھرپور کوشش کرتے رہے۔ان کی خدمات اور قابلیت کے پیچھے یہی ایک جذبہ کارفرما تھا کہ سائنس نہیں بلکہ پہلے قرآن ہے۔اور صحیح سائنس کو آخرکار وحی الٰہی کی تصدیق کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ چنانچہ وفات سے چند ماہ قبل ماہنامہ محدث میں بھی ان کا مضمون اسی موضوع پر شائع ہوا ۔ (دیکھیں ماہنامہ محدث لاہور، ستمبر ۲۰۰۳ء) کتابیں جمع کرنے کاشوق سرحد میں قیام کے دوران ہی کتابیں جمع کرنا اور لوگوں کو اپنی لائبریری میں بلانا اور اُنہیں تعلیم دینا ایک محبوب مشغلہ تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا۔ بالآخر زندگی ختم ہونے کو آئی مگر اختتامِ شوق کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا، جن دنوں میں اُن کی خدمت میں حاضر ہونے لگا، اُن کے پاس ایک سوزوکی پک اَپ بطورِ ذاتی سواری موجود تھی جو بعدازاں انہوں نے فروخت کردی۔ میں نے عرض کیا کہ ”سر! آپ اس رقم سے عمرہ ادا کرآئیں ۔“ تو کہا کہ ”عمرہ بھی ان شاء اللہ کرنے کا ارادہ ہے مگرالمکتبة العلمیة والوں کے پاس کچھ نئی کتابیں آئی ہیں اگر وہ کسی اور نے لے لیں تو ہم رہ جائیں گے۔ بس گئے اور ’الماوردی‘ کی ’الاحکام‘ سمیت بہت سی قیمتی کتابیں اُٹھا لائے۔اُن کے کتابیں جمع کرنے کے شوق کے متعلق چوہدری عبدالرحمن ایڈووکیٹ ہمیں بتاتے ہیں : ”کتابیں جمع کرنا تو اُن کا مشغلہ اور مقصد ِ حیات تھا، اُن کی جائیداد علم اور کتابیں تھیں ۔ وہ فٹ پاتھ سے بھی قیمتی ہیرے تلاش کرلیتے تھے۔ رقم پاس نہ ہونے کے باوجود وہ یہاں تک کتاب کو اپنے قبضہ میں کرلینا چاہتے تھے کہ مثلاً پانچ روپے کی کتاب لینے کے لئے ہزار روپے کی گھڑی اُتار کر گروی رکھوا دیتے کہ میں پانچ روپے لے آوٴں گا تو گھڑی لے جاوٴں گا۔ بس، کتاب مجھے دے دو یعنی وہ کتاب کو ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک مخلص کتاب دوست تھے جو قرآنی معجزات کو سائنس پر ہر لحاظ سے برتر ثابت کرنے کی لگن رکھتے تھے۔ موضوع کی مناسبت سے دلائل اکٹھے کرنے اور حوالہ جات کے انبار لگا دینے میں اپنا ثانی |