کالج لاہور میں پڑھتا تھا، جس اجلاس میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تھی، میں بھی اس میں شریک تھا۔ جب وہ تحریک ِآزادی کے موضوع پربات کرتے تو آج بھی اُن کا جذبہ جواں نظر آتا تھا اور ان کی ’مجاہدانہ‘ سوچ کھل کر سامنے آجاتی تھی کہ وہ کس قدر اُمت ِمسلمہ خصوصاً پاکستان کے لئے تڑپ رکھتے تھے۔تحریک ِپاکستان کے علاوہ ایسی اور بھی تحریکوں میں حصہ لیا جو مسلمانوں کی آزادی کے لئے کام کررہی تھیں جیسے سرحد کی ’فریڈم موومنٹ‘ وغیرہ۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور میں لکشمی چوک کی گیتا بھون بلڈنگ میں رہائش ملی بعد ازاں باقی بہن بھائی تو گلبرگ اور ڈیفنس میں منتقل ہوگئے مگر اُن کو پرانی رہائش گاہ چھوڑنے کی ہمت نہ ہوئی اور آخر وقت تک اسی جگہ کو عزیز ِجان بنائے رکھا۔ ملازمت اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد فارماسیوٹیکل کی مختلف کمپنیوں میں ملازمت کے مواقع ملے۔ سب سے پہلے لاہورکی پاپولر کیمیکل ورکس میں ، پھر وائتھ (Wyth) میں فارماسسٹ انچارج بنے اور بعد میں کراچی کی Chas Mendoza Company میں بطور سینئر فارماسسٹ رہے مگر ’جرمِ ایمانداری‘کی وجہ سے ملازمت برقرار نہ رہ سکی اور اچھی خاصی تنخواہ کو خدا حافظ کہا اور گھر لوٹ آئے۔ کمپنیوں کی معاونت و مشاورت بعد میں بھی جاری رہی، جب بھی کوئی کمپنی یا شخص اُن سے کوئی کلیہ یا فارمولا پوچھتا تو بلا معاوضہ اُسکی رہنمائی فرماتے۔ فارمیسی کی دُنیا سے قرآن اور سائنس تک! اللہ تعالیٰ نے اُمت ِمسلمہ کو ایک سے ایک بڑھ کر عالم سے نوازا ہے اور ویسے بھی وہ جس سے اپنے دین کے لئے کام لینا چاہے، اسے منتخب کرلیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نوری صاحب سے بھی کچھ ایسا ہی کام لینا چاہا تو ان کا سینہ اس بات کے لئے کھول دیا کہ اس وقت عالم اسلام کو ایسے سکالر کی ضرورت ہے جو دُنیا کے سامنے یہ بات مدلل انداز میں بیان کرے کہ وہ باتیں جو آج سائنس نہایت عرق ریزی سے لیکن اُدھورے مفروضات کی شکل میں سامنے لارہی ہے، یہ باتیں اللہ تعالیٰ نے آج سے چودہ سو سال پہلے وحی کے ذریعے اپنے نبی |