حاصل کی بعد ازاں آپ اپنے والد (ضیاء الحسن بن نور الحسن قریشی جو کہ سنٹرل گورنمنٹ آف انڈیا کے محکمہ ٹیلیفون میں انجینئر تھے) کے ساتھ ساتھ ملک کے دور دراز علاقوں زیادہ تر صوبہ سرحد کے علاقے میران شاہ اور بنوں میں رہے۔ اس کے علاوہ لاہور، کراچی، شملہ اور ڈیرہ دُون میں بھی سکونت پذیر رہے، تعلیم کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری رہا، پنجاب بورڈ سے میٹرک اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا۔ بعد میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی اور بعد میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے بی ایس سی انجینئرنگ کا امتحان پاس کیا۔ پھر ایم ایس سی فارمیسی کرنے علی گڑھ چلے گئے۔ مگر بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر یونیورسٹی کی تعلیم مکمل نہ کرسکے۔ آپ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ بچپن میں چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ رویہ کیسا تھا؟ یہ جاننے کے لئے ہم نے اُن کے چھوٹے بھائی جناب عین الحسن قریشی صاحب (جو ورلڈ بینک کے پروجیکٹ ایڈوائزر ہیں ) سے دریافت کیا تو اُنہوں نے بتایا: ”بھائی جان کا ہمارے ساتھ رویہ بہت شگفتہ اور پیار بھرا ہوتاتھا، شایداس کی وجہ ہماری والدہ محترمہ کا کم عمری میں ہم سے بچھڑنا تھا، چنانچہ بھائی صاحب نے ہمیں والدہ کے پیار اور شفقت کا سایہ فراہم کیا اور اُنہوں نے ہمیں والدہ کا بچھڑنا زیادہ محسوس ہونے نہیں دیا، ہماری صحت، لباس، خوراک، تعلیم پرورش اور ضروریات کا خیال بالکل ماں کی طرح رکھا۔ شروع سے گھر کا ماحول خاصا مذہبی، تعلیمی اور اخلاقی تھا جس کو بھائی جان نے باحسن انداز آگے بڑھایا۔ یہی وجہ تھی کہ ہم سب ان کا بہت احترام اور دل میں مقام رکھتے تھے۔“ آپ اپنے دادا نورالحسن مرحوم کی نسبت سے نوری کہلاتے تھے۔ ۱۹۶۵ء میں ان کی شادی ’مدرسۃ البنات‘ لیک روڈ میں عربی کی پروفیسر محترمہ خورشید النساء سے انجام پائی اور یہ رشتہ مولانا عبید الحق ندوی صاحب کی کوششوں سے طے پایا۔ تحریک ِپاکستان میں کردار وہ خود فرمایا کرتے تھے کہ میرے اِردگرد خصوصاً لاہور میں قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کا کوئی جلسہ، جلوس، پروگرام یا ریلی ایسی نہیں ہوتی تھی جس میں ، میں بھرپور طریقے سے شریک نہ ہوتا تھا۔ میں باقاعدہ طور پر ۱۹۴۰ء میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن MSF میں شامل ہوا، اس وقت گورنمنٹ |