ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں عملی جامہ پہنایا جائے، دوسرے یہ کہ مدارس کے ساتھ ساتھ تحقیقی اور علمی مراکز قائم کئے جائیں اور اہلحدیث اپنی ثالثی عدالت بھی قائم کریں ۔ جامعہ ستاریہ کے حافظ محمد ادریس سلفی نے تمام پیش کردہ تجاویز کو سراہا اور خاص طور پر اس تجویزکو کہ مدارسِ عربیہ میں ایک نہ ایک عمرانی علوم کی تدریس ضرور کی جائے۔ انہوں نے فیصل آباد کے دارالعلوم الاثریہ اور مدرسہ دراسات اسلامیہ کاتذکرہ کیا جنہوں نے تحقیقی میدان میں ایک نام پیدا کیا ہے۔ مزید ایسے ہی اداروں کے قیام کی شدید ضرورت ہے۔ جامعہ ستاریہ کے مولانا محمد اسحق شاہد نے پہلے دونوں مہمان علما کی تجاویز کو سراہا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کے لئے لائحہ عمل بھی تجویز کریں ۔ انہوں نے کہا کہ تصویر ومجسمہ سازی اور رقص و سرود کے جواز پرلکھی گئی تحریروں کا جواب جلد از جلد آنا چاہئے۔ صحیفہ اہل حدیث کے معروف مضمون نگار جناب الیاس ستار نے اپنی ان کاوشوں کا تذکرہ کیا جو وہ قادیانیت اور عیسائیت کے محاذ پر تن تنہا انجام دے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ دشمن کے مقابلہ کے لئے یا تو انسان خود مضبوط بنے یا دشمن کو کمزور کرنے کی کوشش کرے، اگر ہم خود میزائل نہیں بناسکتے تو کم از کم یہی کریں کہ جس کے ہاتھ میں میزائل ہے اسے اپنا ہم نوا بنالیں ۔ انہوں نے مسلمانوں کی عملی منافقت کے ضمن میں برنارڈ شا کا یہ قول پیش کیا کہ اسلام سب سے بہترین مذہب ہے لیکن مسلمان بدترین لوگ ہیں ۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب پر مرنے سے متعلق بائبل کے مختلف نسخوں کے تضاد کی طرف بھی اشارہ کیا۔ جماعت غرباء اہلحدیث سے وابستہ جناب عبدلواحد نے کہا کہ مقام افسوس ہے کہ اہلحدیث مساجد میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں ہماری بھرپور نمائندگی ہونی چاہئے، ملکی قانون کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ حدود آرڈی ننس ایک عرصہ سے قانون کا حصہ بن چکا ہے لیکن آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح قبائلی علاقہ میں جرگہ کے ذریعہ فیصلے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح جماعت اہلحدیث کابھی اپنا عدالتی فورم ہوناچاہئے۔ آخر میں مولانا محمد سلفی نے موضوع کو سمیٹتے ہوئے یہ تجویز پیش کی کہ چاروں صوبوں میں علما کنونشنوں کے بعد ملک گیر سطح پر ایک علما کنونشن منعقد ہوناچاہیے۔ اس وقت جہاں کنونشن منعقد کیے جا رہے ہیں وہاں علما کے علاقائی پینل بھی قائم ہونا چاہئیں اور آخر میں قومی سطح پر |