Maktaba Wahhabi

112 - 142
اپنے سیاسی اور اقتصادی تسلط کو دوام عطا کرنے کے لئے امریکہ نے مسلم معاشروں پر گذشتہ چند سالوں میں تہذیبی سرگرمیوں میں بھی غیر معمولی اضافہ کردیا ہے اور اس تہذیبی یلغار میں اس کا تعاون اس کی گماشتہ اسلام دشمن NGO'sکے علاوہ ایسے نام نہاد علمی حلقے بھی کررہے ہیں جو اسلام کے بارے میں معذرت خواہانہ رویے کی صورت مغرب سے مرعوبیت کا شکار ہیں ۔ ایسے نام نہاد دانشوروں کی کارکردگی، عوام میں ان کی اثر پذیری کی غرض سے انتشار انگیزی کے طریق کار کے طور طریقوں پر علماءِ حق کے لیے نظر رکھنا اور ان کا مناسب توڑکرنا ایک اہم چیلنج ہے۔ کیونکہ سیاسی اور اقتصادی استعمار سے پیچھا چھڑانا توشاید ممکن ہو لیکن ثقافتی اور فکری یلغار سے اگر قوم کے ذہن مسموم ہوجائیں تو ایسی فکری محکومی غیر ملکی قبضہ کو تحفظ اور لامحدود طوالت عطا کرتی ہے۔ مولانا مدنی نے علما کو ایسے ثقافتی تخریبی عناصر کے بارے میں احساس دلاتے ہوئے کہا کہ ماضی میں برصغیر میں یہی کام مرزا غلام احمد قادیانی نے کیا، درمیانے ادوار میں یہ مکروہ فریضہ غلام احمد پرویز اور ان کے حواری انجام دیتے رہے اور دورِ حاضر میں اس ناروا فرض کی تکمیل کا بیڑا جناب جاوید احمد غامدی اور ان کے تشکیک زدہ نوخیزتحقیق کاروں نے اُٹھایا ہے۔ اس گروہ نے نہ صرف امریکی جارحیت کو مبنی برحق ثابت کرنے کے لئے قلم و قرطاس کا سہارا لیا ہے بلکہ زبان و بیان سے بھی مسلمانوں کے مسلمہ موقف کو غلط اور ناروا قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ غامدی گروہ نے افغانستان و عراق پرامریکی قبضے کی حمایت کرتے ہوئے اسامہ بن لادن اور ملا عمر کو حالیہ جنگی جارحیت کامجرم قرار دیاہے۔ ان کی رائے میں نہ صرف کشمیر وفلسطین کا جہاد دہشت گردی ہے بلکہ ان کے خیال میں سارا بیت المقدس بھی اسی طرح یہودیوں کودے دینا چاہئے جیسے مسلمانوں کو بیت اللہ پرکنٹرول حاصل ہے۔ مولانا مدنی صاحب نے زور دے کر کہا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح یہ گروھ بھی نہ صرف موجودہ دور میں جہاد کا مخالف ہے بلکہ قادیانی عقائد کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات اورنزولِ ثانی کے خلاف عقیدہ بھی رکھتا ہے۔ ثقافتی میدان میں بھی ان کے نظریات نہایت مسموم ہیں جن کی رو سے نہ صرف (معاذ اللہ ) ناچ گانا انبیاء اور کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا پسندیدہ عمل رہا ہے بلکہ تصویر و مجسمہ سازی بھی اسلامی نقطہ نظر سے مرغوب شے ہے۔ ان کے نزدیک
Flag Counter