Maktaba Wahhabi

107 - 142
فن کی تعلیم نہیں ہوتی۔ اس کی دلیل ان شعبوں کی رسمی فیس اور ناگفتہ بہ انتظامات ہیں ۔ اسلام میں علم دنیا کمانے کا ذریعہ نہیں بلکہ علم اور مال ودولت کو دو مختلف میدان قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب معروف اشعار قابل مطالعہ ہیں : رضينا قسمة الجبار فينا لنا علم وللجهال مال فإن المال يفنى عن قريب والعلم باق لايزال ”اللہ تعالیٰ کی اس تقسیم پر ہم راضی برضا ہیں کہ ہم تو علم کے حامل ہوجائیں اور جاہلوں کواللہ تعالیٰ مال ودولت عطا کردے۔ مال کو عنقریب فنا ہوجانا ہے جبکہ علم کو ہی ایسی دائمی بقا حاصل ہے جس میں زوال کا امکان نہیں ۔“ ان اشعار میں مال ودولت اور علم کو مدمقابل پیش کیا گیا ہے اور مال ودولت کو جاہلوں کے ساتھ خاص کیا گیا ہے۔یہاں علم سے مراد بھی دینی علم ہی ہے گویا دینی علم ہی اسلام کی نظر میں حقیقی علم کہلانے کا اصل مستحق ہے۔ اسلامی معاشروں میں تعلیم نہ صرف مفت ہوتی ہے بلکہ اس کے لئے وظائف٭ دیئے جاتے ہیں ۔ علم و تعلّم سے وابستہ افراد کا احترام ان کی مالی حیثیت سے نہیں بلکہ معاشرتی مقام و مرتبہ سے ہوتا۔ یہاں علم کو روحانیت وتقدس حاصل تھا اور علم کو مادّی ضرورت کے بغیر روحانی اور انسانی بنیادوں پر پروان چڑھایا جاتا تھا۔ کیونکہ اس علم کے فروغ کی ذمہ داری نبی آخر الزماں نے ان کے سپرد کی تھی اور علم کی یہ صفت خالق کائنات نے اپنی ذات کے لئے پسند فرمایا تھا۔ مغربی معاشروں میں علوم کو مادّی ضروریات کے سہارے سیکھا پڑھا جاتا ہے۔ یہاں پہلے ضرورت اور اس ضرورت کی مادّی پیمائش ہے،جس علم کی کسی طبقہ زندگی میں ضرورت پیدا ہوتی ٭ برصغیر میں مسلمانوں کے روایتی نظام تعلیم پر لارڈ میکالے نے ۱۸۳۸ ء میں بنیادی اعتراض یہ کیا تھا کہ ایسا علم جو حصول کے بعد اپنے حامل کو مالی آسائش نہ دے سکے، اس علم کو سرکاری وظائف سے سکھانا ایسی رشوت دینے کے مترادف ہے جوایک بے کار چیز کو سیکھنے کے لئے طالب علم کو دی جاتی ہے۔اس نے مسلمانوں کے جملہ علوم کو یہ کہہ کر حقارت کی نظر سے دیکھا کہ ان کی وقعت مغرب کی کسی اچھی لائبریری میں موجود ایک شیلف کی کتب سے زیادہ نہیں ۔لہٰذا ضروری ہے کہ ان جملہ علوم کی جگہ جدید علوم کو یہاں حکومتی سطح پر رواج دیا جائے۔ مزید تفصیلات کے لئے میکالے کی اصل رپورٹ دیکھیں …ترجمہ از شبیر حسین بخاری
Flag Counter