ہے، وہاں اس کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ہر شے تجارتی ضابطے ’ڈیمانڈ اینڈ سپلائی‘ کے اُصول پر چلتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ روحانی، انسانی، اجتماعی اور اخلاقی علوم کی ضرورت روز بروز کم ہوتی جاتی ہے، دوسری طرف معلمی کو بھی ایک معاشی کارکن کا درجہ مل گیا ہے جسے اسلام میں نبوت کا تقدس حاصل تھا۔ ان محروم توجہ علوم سے بے اعتنائی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مغرب میں روحانی خلا ہے اور فطرت سے انحراف، بے اطمینانی، بے سکونی اور ذہنی بیماریاں ، خود کشیاں روز افزوں ہیں ۔ غرض اسلام میں علم کا مفہوم اور ہے اور اہل مغرب کے ہاں اور!! گذشتہ صفحات میں جن چند نکات کی صورت میں حاصل فکر پیش کیاگیا، ان کے دلائل کا مطالعہ مزید بہت سی جہتوں کو کھولنے کا سبب بن سکتا ہے۔ طوالت کے پیش نظر ضروری دلائل کو حواشی میں درج کرنے پر اکتفا کیا گیاہے ۔ ان نکات میں فرق کا اثر اسلامی اور مغربی معاشرے میں بخوبی دکھائی دیتا ہے۔ علم کا یہ تو وہ تصور ہے جو اسلامی نظریات میں موجود ہے۔ لیکن جس طرح اسلام اور مسلمانوں کے طرزِ عمل میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔ اسلام جن اُمور کا ہم سے تقاضاکرتا ہے، مسلمان اس سے کوسوں دو رہیں ۔ عین اسی طرح علم کے اس مقدس اسلامی تصور کا وجود بھی مسلمانوں کے ہاں معدوم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان میں علوم کے احیا کی تحریک پیدا ہو، مغرب کی موجودہ تمام تر برتری اس کی علمی برتری کی مرہونِ منت ہے جس کے مختلف مظاہر سیاسی، معاشرتی، اقتصادی، حربی، فکری اور ابلاغی تسلط و تحکم کی صورت میں نمایاں ہیں ۔ مسلمانوں کی موجودہ پستی کی وجہ علم کے ان نبوی فرامین سے انحراف ہے جن کا اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے!! اس ساری بحث کے تناظر میں یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام او رمغرب میں بنیادی فرق روحانیت او رمادیت کا ہے۔ہمارے پیش کردہ نکات اسی ایک نکتہ کے ہی مختلف پہلو ہیں ۔ |