Maktaba Wahhabi

106 - 142
وتعلیم قرار دیا: ﴿ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ﴾ (آلِ عمران: 164) اس کے بالمقابل مغرب میں علم کو یہ تقدس سرے سے حاصل نہیں ۔ مغرب کاعلم ایک مادّی وجود / بنیاد رکھتا ہے جو انسانی ضرورتوں سے وابستہ ہے۔ چونکہ یہاں روحانی ضرورت سے انحراف پایاجاتا ہے، اس لئے روحانی علوم (مذہب و دین) کو سرے سے علم ہی نہیں مانا جاتا۔٭ مغرب میں علم انسانی فرض کی تکمیل کی بجائے مادّی ضروریات کی تکمیل کے واسطے پڑھاجاتاہے۔ جدید مغربی یونیورسٹیوں میں تحصیل علم کا عمل دراصل مستقبل کی وہ سرمایہ کاری ہے جس کی بنیاد پر آئندہ پرآسائش زندگی کی تجارت کی جاتی ہے۔ یہاں انہی علوم کی اہمیت ہے جن کی بنا پر تحصیل علم کے بعد بازار میں اچھا دام لگنے کی گنجائش ہے۔ مغربی یونیورسٹیاں اور ان کی دیکھا دیکھی مسلم ممالک کی جدید یونیورسٹیاں ایسے علوم کی فروخت کرتی ہیں جن سے اچھی ملازمتوں کا حصول ممکن ہوسکے۔ ایسی ڈگریوں کے لئے ان یونیورسٹیوں میں جم غفیر لاکھوں روپے کی فیس دینے پر آمادہ ہے۔ چنانچہ تمام پرائیویٹ کالجز بھی ایسی ہی تعلیم کا بیوپار کرتے ہیں جن ڈگریوں کی بازار میں مانگ ہے گویا پرائیویٹ کالجوں نے تو ان علوم کا ٹھیکہ لیا ہے جن کی بازار میں بولی لگتی ہے جبکہ سرکاری یونیورسٹیوں کے وہ شعبے ویران ہیں جہاں کسی جدید ٭ مذہبی تعلیمات کو ’علم‘ قرا ردینے سے جدید دانش اس بنا پر احتراز کرتی ہے کہ اس کی رائے میں مذہبی عقائد وتصورات مشاہدہ، عقل اور تجربہ کی میزان میں پورے نہیں اُترتے۔اور ایسا علم جو ان پیمانوں پر پورا نہ اترے، اس کو علم کیونکر مانا جائے۔اس بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ اسلامی عقائد وتصورات عقل سے تخلیق تو نہیں کئے جاسکتے لیکن عقل کے معروف ضابطوں پر آخر کارہ وہ لازماً پورے اُترتے ہیں ۔لیکن اس کے لئے عقل کو اعتراض کی بجائے اتباع کا رویہ اپنانا ضروری ہے۔ البتہ معجزات اور ایمان بالغیب میں بعض تصورات انسانی عقل سے ماورا بھی ہیں ۔ جب ایک مسلمان مختلف حوالوں سے نبی کی نبوت پر ایمان لاتا ہے تو اس کے بعداس نبی کا مستند فرمایا ہوا، اس کے نزدیک تمام انسانی ضوابط سے برتر حیثیت رکھتا ہے۔اس سلسلے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ صدیق کا ایمان افروز واقعہ مشہور ہے جس میں نبی کریم کے دعویٰ معراج کے بارے مشرکین نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ کیا اب بھی اس نبی پرایمان لاتے ہو جو ایک رات میں اتنا طویل سفر کرنے کا ناممکن دعوی کرتا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ اگریہ بات نبی کریمؐ کا فرمان ہے تو میں اس کے سچ ہونے کی گواہی دیتا ہوں ( چاہے وہ عقل میں نہ بھی آئے)۔(مستدرک حاکم:ج۳ /ص۶۲) غرض اسلام میں وحی اور مقامِ نبوت کی حیثیت اپنی عقل اورمشاہدہ سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ یہی عقل کا تقاضا ہے کہ ایک نبی کو اللہ کا پیغمبرمان لینے کے بعد اپنی عقل کو اس کے سامنے مطیع کردینا چاہئے۔جبکہ جدید تصورِ عقل اس سے مختلف ہے!!
Flag Counter