سمیٹتے ہوئے ہم آخری نکتہ یہ ذکر کریں گے کہ مغرب کے جس علم و فن کی برتری کا بہت چرچا ہے اور اسلام کو اس سلسلے میں کوتاہی سے مطعون کیاجاتا ہے، علم کے باب میں بھی اسلام اور مغرب کے تصور میں بعد المشرقین پایا جاتا ہے۔ اسلام میں علم انسانی ذہن کی معراج ہے۔ کائنات میں معارفِ ربانی کی جستجو کو علم کا نام دیا گیاہے۔ اسلا م میں علم کواس قدر تقدس حاصل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معلمی کو اپنی بعثت کا امتیاز[1] بناکر پیش کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور مقام پر فرمایا کہ إن العلماء ورثة الانبياء، إن الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما إنما ورثوا العلم (ترمذی 2682) ”بلاشبہ علما ہی انبیا کے وارث ہیں ۔انبیاء کرام درہم و دینار کی وراثت نہیں چھوڑتے ، ان کی میراث تو علم ہوتاہے۔ “ اسلام سب سے پہلے اس علم کو اہمیت دیتا ہے جو اس کو اپنی ذات کی معرفت دے اور اپنے خالق کی آگہی عطا کرے۔ اس کو دنیا میں اپنی کوتاہیوں کی پرکھ کا سلیقہ اور دوسروں سے چلنے اور برتاوٴ کرنے کا ڈھنگ آجائے۔ اپنے نفس کی معرفت، مقصد ِتخلیق کا شعور اور اپنے ربّ سے وابستگی پیدا ہوجائے۔ اپنے خالق کی پہچان اور اس کی معرفت حاصل ہوکر انسان اس کے حقوق کی ادائیگی کے قابل ہوجائے۔قرآنِ کریم اہل علم کی یہ شان اور نشانی قرار دیتا ہے کہ وہ اللہ کی خشیت[2]اختیار کرتے ہیں ۔ پہلی وحی ’اقراء‘ جو پڑھنے کے حکم پر مبنی ہے، میں بھی اللھ نے صرف پڑھنے کا حکم دینے کی بجائے اُس ربّ کے نام[3]سے پڑھنے کاحکم دیا جس نے انسان کو عدم سے وجود بخشا۔ قرآن نے عالم اور جاہل کوبرابر قرار دینے پر تعجب[4] کا اظہار کیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کومسلمانوں پر فرض[5] قرار دیا اور اس کے لئے اہل علم نے دور دراز کے سفر اختیار کئے۔ ان اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں علم ایک مقدس فرض ہے او رمعلمی ومبلّغی ایک نبوی منصب کی تکمیل ہے۔ اسلام کی نظر میں قرآن کے معلم و متعلّم دنیا کے بہترین[6] انسان ہیں ۔ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو انسانیت کامعلم [7]قرار دیا اور نبی کریم کا مقصد ِبعثت تزکیہ |