Maktaba Wahhabi

104 - 142
نظام کی نشوونما اُلجھے ہوئے او رپیچیدہ طریقے سے ہوئی ہے۔ مغرب کے سیاسی اور سماجی نظام کی بنیادیں قابل مشاہدہ حقائق پرنہیں بلکہ ناقابل قبول مفروضات پر قائم ہوئی ہیں ۔“(بحوالہ اسلامی ثقافت اور دورِ جدید۔ ص : 182) مغرب میں انسانی علوم پر بھی بہت کام ہواہے لیکن اس کے پس پردہ بھی انسانیت کے جوہر کی بجائے مادّیت کا عنصر کار فرما ہے۔ اس طرح مغرب میں ادب اور فنونِ لطیفہ کو انسانی قدروں پر بھی برتری حاصل رہی ہے۔ اس سلسلے میں برطانیہ کے ایک مشہور مباحثہ کا حوالہ دینا مناسب ہوگا جس میں اخبارات کے ذریعے قارئین کو ایک معمہ حل کردینے کی دعوت دی گئی۔ وہ معمہ یوں تھا : ”فرض کیجئے کہ ایک کمرے میں یونانی صناعی کاایک نادر وبے مثال مجسمہ رکھا ہے، اس کمرے میں ایک بچہ بھی سو رہا ہے۔ اگر اس کمرے میں آگ لگ جائے اور دونوں میں سے صرف ایک کو بچانا ممکن ہو تو آ پ کی رائے میں کسے بچانا چاہئے؟ اخبارات کے برطانوی قارئین جن میں اکثر صاحب ِفہم و ادراک، تعلیم یافتہ اور روشن خیال لوگ بھی موجود تھے میں سے اکثریت کا جواب یہ تھا کہ ”بچے کو بے شک جل جانے دیا جائے لیکن مجسّمے کو بچا لیاجائے۔ “ جناب مارماڈیوک نے اس مباحثے کے تذکرہ کے بعد اس پر تبصرہ یوں تحریر کیا : ”اس ظالمانہ اور خود غرضانہ فیصلے کی یہ تاویل دی گئی ہے کہ بچے تو روزانہ ہزاروں پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن یونانی صناعی کے ایسے بے بدل اور نایاب مجسّمے دنیا کو دوبارہ حاصل نہیں ہوسکتے۔ مسلمان کسی ایسے بے رحمانہ اور ظالمانہ فیصلے کے بارے میں سوچنے کاخیال بھی دل میں نہیں لاسکتا۔ اس قسم کی باتوں کو دورِ حاضر کی مہذب بت پرستی ہی کہا جاسکتا ہے۔“ (ايضاً: ص27) اس تبصرے پر ہم یہ اضافہ کریں گے کہ اسلام تو ایک انسان کی جان[1] بلکہ عزت کی پامالی کو بھی بیت اللہ جیسی اہم ترین اسلامی عمارت اور الٰہی شعارسے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اسلام ہی انسانیت کے احترام، سکون و اطمینان اورحقیقی مرتبہ کاحامل واحددین ہے۔ (4) تصورِ علم اسلام اور مغرب میں رجحانات اور عقائد و نظریات کے فرق پر مبنی اس بحث کو
Flag Counter