میں ان کا کوئی وجود نہیں ۔ جرمن پروفیسر جوزف ہیل اپنی تصنیف ’عرب تہذیب‘ میں ان ادوار کی دانش گاہوں کے بارے میں لکھتے ہیں : ”ان دانش گاہوں میں مذہب کو سب سے بڑا مرتبہ حاصل تھا کیونکہ مذہب ہی نے پہلے پہل حصولِ علم کے راستے کھولے تھے۔ تعلیم القرآن، علم حدیث اور فقہ کو ان درس گاہوں میں امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ یہ اسلام ہی کا کارنامہ ہے اور یہ فخر مسلمانوں ہی کیلئے مقدر ہوچکا تھا ۔“ یہاں اس نکتہ کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ابتدائی ادوار میں مسلمانوں کی زیادہ تر توجہ علومِ شریعت کی طرف رہی اور شریعت اسلامیہ کے ذریعے انہوں نے زندگی کے مختلف پہلووٴں اور فرد و معاشرہ کے مختلف حوالوں پرتحقیقی و تدوینی کام کیا۔ قدرے بعد کے ادوار میں مسلمانوں نے ان علوم پر بھی توجہ دی جنہیں آج سائنس کے نام سے پکاراجاتاہے۔عباسی خلافت میں ہی اس کی داغ بیل تو ڈالی جاچکی تھی لیکن پہلے پہل مسلمانوں کے ہاں ترجیح بہرحال علومِ شریعت کو حاصل رہی۔ مسلمانوں نے جدید علوم پر اس وقت کام کیا جب وہ دینی سرمایہ پر غیرمعمولی کام مکمل چکے تھے۔ مزید برآں جن لوگوں نے جدید سائنس پر ابتدائی نوعیت کا بنیادی کام کیا جس کی بدولت آج یورپ اس غیرمعمولی ترقی تک پہنچا ہے، ان میں اکثریت بھی ایسے لوگوں کی تھی جو دیندار رجحانات میں ممتاز نہ تھے، بلکہ بعض سائنسدانوں پر منحرف عقائد کا الزام بھی کتب ِتاریخ میں ملتا ہے۔ بعض دانشوروں کے نزدیک جدید سائنسی علوم کے قرآن و احادیث میں موضوع نہ بنائے جانے کی وجہ دراصل یہ ہے کہ ایسے علوم کو مشاہدے اور دیگر انسانی صلاحیتوں کے سہارے حاصل کرنا ممکن ہے جبکہ اجتماعی و عمرانی علوم کا حصول انسانی صلاحیت سے بڑھ کر ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں بطورِ وحی نازل کیا۔ چنانچہ انبیاء جس علم کو لے کر آتے ہیں وہ علم لدنی ہوتا ہے ، ان کاکسبی علم نہیں ہوتا…!! اس کے بالمقابل اگر مغرب میں نشاۃ ِعلوم کی تحریک کا جائزہ لیں تو علوم کی یہ نشاۃ ِثانیہ ان کے تصورِ فلاح اور مقصد و منزل سے مطابقت رکھتی ہے۔ اس تحریک میں ادب اور طبعی سائنسز کو خصوصی اہمیت حاصل ہوئی۔ طبعی سائنسز جن کا زیادہ تعلق مشاہدہ اور تجربہ سے ہے اور دوٹوک نتائج کی وجہ سے انہیں حقیقی سائنسز (Actual Sciences)بھی قرار دیا جاتا ہے کو جدید مغرب میں وہ قبولِ عام حاصل ہواکہ انہوں نے ابتدائے کار اجتماعی، عمرانی اور سیاسی علوم کو |