Maktaba Wahhabi

101 - 142
کے غنی مسلمان بھائیوں پر ڈالی گئی ہے۔خیرالقرون کے اس فلاحی معاشرے کی یہ خصوصیت بھی تاریخ میں موجود ہے کہ اس دور میں ڈھونڈے سے زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا۔ ٭ اسلام اور کفر کے اس تصورِ فلاح کابہت سااثر ان کے رحجاناتِ زندگی پر پڑتا ہے۔ اہل یورپ کی نظر میں فلاح کے جو بنیادی اسباب ہیں ، ان کی تمام تگ و تاز بھی انہی کے حصول میں لگی نظر آتی ہے۔ جبکہ اسلام کے نام لیوا اپنی کوششوں کامحور و مرکزان اسباب کو بناتے ہیں جو ان کے تصورِ فلاح کی تکمیل کردیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے احیاءِ علوم کے اپنے سنہرے دور میں جن موضوعات اور علوم کو رواج دیا وہ ان کے تصورِ فلاح سے مطابقت رکھتے تھے۔ عباسی دورِ خلافت جو مسلمانوں میں علوم کا زرّیں عہد کہلاتا ہے، میں مسلمان اہل علم نے علومِ شریعت کو اپنی محنت کامرکز و محور قرار دیا۔ قرآن اور احادیث کے دو بنیادی مآخذ ِوحی کے حوالے سے تمام تر علوم کی تدوین اسی دور میں ہوئی۔ مسلمانوں نے حدیث ِنبوی کی حفاظت کے حوالے سے ایسا فن تحقیق مدوّن کیا جس پر جدید دنیا آج بھی انگشت بدنداں ہے کہ اس قدر گھرے اُصولِ تحقیق اتنی صدیاں قبل نہ صرف دریافت ہوئے بلکہ ان پر کماحقہ عمل بھی کرلیا گیا۔ مسلمانوں نے اپنے سیاسی اور عمرانی افکار میں اسلام کی مشعل تھام کر ترقی کی ایسی منازل طے کیں کہ آج کی جدید ترقی یافتہ دنیا بھی اس اسلامی معاشرے کی مثال پیش کرنے سے قاصرہے۔ ابتدائی چارصدیوں میں مسلمانوں نے اسلام کے حوالے سے اتنے متنوع موضوعات پردادِ تحقیق دی اور اتنے علوم و فنون کو مدوّن کیا کہ جدید عقل ودانش اس پر متحیر ہے۔ قرآن کریم اور سنت ِنبوی کا مفہوم سمجھنے کے لئے مسلمان اقوام نے عربی لغت اور قواعد نگاری میں ایسا شاندار کام کیا کہ کئی یورپی ماہرین کے نزدیک انگریزی لغت کے قواعد کا اس کے مقابلے میں ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔ ابن ندیم معروف ورّاق اور کتب فروش نے چوتھی صدی ہجری میں بغداد میں پائی جانے والی کتب کی نشاندہی پر مبنی الفہرسۃ نامی کتاب تصنیف کی جس میں اس دور میں علم کی شاخوں اور رجحانات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بعد کے ادوار میں مسلمانوں پر فتنہٴ تاتار کی یورش نے ان میں سے اکثر کتب کو دجلہ و فرات کی بپھری لہروں کے سپرد کرکے صفحہٴ ہستی سے مٹا دیا اور اس کتاب میں موجود 80 فیصد کتب کے صرف نام اب باقی ہیں ، دنیا
Flag Counter