Maktaba Wahhabi

100 - 142
دوسروں کے کام آنے والے کے نہ صرف اللہ تعالیٰ کام مکمل[1] کرتے ہیں بلکہ دوسروں کے لئے نفع مند شخص کو دوام [2]عطافرماتے ہیں ۔ (4) دولت کو جائز طریقوں سے حاصل کیا جائے، اور اس کا حق[3] ادا کیا جائے۔ورنہ یہ مال و دولت روزِ قیامت اپنے مالک کی گردن پر سوار [4]ہوگا۔ ایک فلاحی معاشرہ اور فلاح یافتہ انسان کی خصوصیات بے شمار ہوسکتی ہیں جن میں عدل وانصاف بھی شامل ہے۔ لیکن اختصار کے پیش نظر انہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ان چندنکات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کا تصورِ فلاح، مغرب کے تصورِ فلاح سے مختلف ہے۔ بالخصوص مغرب میں روحانیت، عزیز و اقارب سے ہمدردانہ سلوک اور مال و دولت کا جائز حصول اور اس کو جائز مقام دینا وغیرہ اسلام سے یکسر مختلف ہیں ۔ اسلام کا تصورِ فلاح ایک لفظ میں سما سکتا ہے کہ اس کی رو سے ایک مطمئن و پرسکون شخص ایک کامیاب[5] آدمی ہے۔اور انسان کو اطمینان اپنی فطرت میں پوشیدہ تقاضوں کی تکمیل سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ اسلام کی بنیاد بھی فطرت پر ہے۔ اگرکوئی شخص اسلام کے بغیر سکون واطمینان کا دعویٰ کرے تو یا تو اس نے اپنی فطرت کو مسخ کرلیا ہے یا اپنی شخصیت کے تشنہ پہلووٴں کو وہ دوسروں بلکہ اپنے آپ سے چھپا رہا ہے یا اس نے اسلام کے بعض اُصولوں کو اپنی زندگی میں اختیار کررکھا ہے گو کہ عقلی حوالے سے سہی، مذہب کے طور پر نہ سہی۔ ان اُصولوں کو اپنانے کی حد تک وہ مطمئن ہے، باقی اُمور میں وہ بھی تشنہ کام ہے۔ اسلامی تصورِ فلاح کا یہ مطلب نہیں کہ اسلامی معاشرے کے افراد محتاج اور دوسروں کے دست نگر ہوتے ہیں ۔ اوّل تو اسلام میں محنت کا ایسا جامع تصور اور احساس موجود ہے کہ کوئی نفس اس سے گریز کئے بنا مجبور و محتاج نہیں رہتا۔ اس کے باوجود رزق کی تقسیم اللہ کی تقدیر کے مطابق ہے۔[6] جس کے لئے زکوٰۃ کا اجتماعی نظام موجود ہے جس میں مستحقین کی ذمہ داری ان
Flag Counter