Maktaba Wahhabi

84 - 95
’’اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوگا‘‘ اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ’’جب وہ مدینے کے قریب آنے کی کوشش کرے گا تو اس کی طرف ایک آدمی جو تمام لوگوں سے بہتر ہوگا، نکلے گا اور اسے کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث بیان فرمائی ہے۔‘‘ (بخاری:۷۱۳۲) ان تمام روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک شخص ہوگا نہ کہ مجازی طور پر کوئی قوم یا ملک۔ صحابہ کرام بھی اسے شخص ہی سمجھتے تھے، البتہ ان کا اختلاف اس بات پر ہوا کہ وہ شخص ابن صیاد ہے یا کوئی اور ۔ اگر اس سے مراد امریکہ یا اسرائیل یا کوئی اور ملک و قوم ہوتی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اختلاف پر ضرور یہ کہہ دیتے کہ ساتھیو! دجال کوئی شخص نہیں کہ تم اسے متعین کرتے پھرو بلکہ وہ تو کوئی جابر استبدادی قوت ہوگی ! مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بوقت ِضرورت کوئی ایسی بات نہ کرنا اسی بات کی قطعی دلیل ہے کہ دجال سے مراد شخصیت ہے ، کوئی استعاراتی امر (یعنی دجالی قوتیں وغیرہ) نہیں ۔ مدنی صاحب نے مزید فرمایا کہ میری رائے میں ہم استعارہ کی حدود میں افراط و تفریط کا شکار ہیں ۔ اس بارے میں ہمارا رویہ متوازن ہونا چاہئے۔ جہاں کہیں (تشبیہ ِمفردکی صورت میں ) اشخاص مراد ہوں وہاں استعارہ کی صورت میں بھی اشخاص ہی مراد لینے چاہئیں نہ کہ قوتیں ۔ مثلاً ملائکہ و جنات اللہ تعالیٰ کی مخصوص مخلوق ہیں ، نہ کہ نیچریوں کے بقول صرف روحانی قوتیں یا اُجڈ لوگ۔ اسی طرح دجال، امام مہدی اور حضرت مسیح علیہ السلام وغیرہ سے مراد مخصوص اشخاص ہیں ۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی نے جو اپنے لئے مثل مسیح کا نظریہ پیش کیا ہے، یہ سراسر تحریف ِدین ہے،اسے استعارہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ البتہ دریائے فرات سے سونے کے پہاڑ کے نمودار ہونے پر الملحمۃ العظمٰی کی جو پیش گوئیاں احادیث میں موجود ہیں ، اس کے بارے میں میرا ذہن اگرچہ اس طرف جاتا ہے کہ چودہ سو سالہ پہلے والی خبر کے الفاظ سے اگر استعارہ کی صورت میں سیال سونا (پٹرول) مراد لے لیا جائے تو اس کی گنجائش نکل سکتی ہے لیکن میں اسے حتمی تعبیر نہیں کہہ سکتا بلکہ اس کی نوعیت اسی طرح کی ہے جس طرح درج ذیل قرآنی پیش گوئی
Flag Counter