کی ہے کہ ﴿فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِيْ السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْن﴾ ( الدخان:۱۰) ’’آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان واضح دھواں لائے گا۔‘‘ اب اس سے بعض اہل علم مثلاً حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، مجاہد رحمۃ اللہ علیہ ، ابوالعالیہ رحمۃ اللہ علیہ ، ضحاک رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے تو یہ مراد لیا کہ یہ کوئی حقیقی دھواں نہیں ہے بلکہ اہل مکہ جب قحط سالی کا شکار ہوئے وہ جب آسمان کی طرف دیکھتے تو بھوک اور کمزوری کی شدت کی وجہ سے انہیں دھواں سا محسوس ہوتا تھا۔ یعنی ان کے نزدیک اس قرآنی پیش گوئی سے انسانوں کی ایسی نفسیاتی کیفیت کا استعارہ مراد ہے۔ جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ، ابن عمر رضی اللہ عنہما ، ابوسعید رضی اللہ عنہ ، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اور کئی تابعین کے بقول اس سے مراد حقیقی طور پر وہ دھواں ہے جو قربِ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہوگا اور اس کا ظہور تاحال نہیں ہوا۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: تفسیر طبری :۱۵/۱۱۱تا ۱۱۴، تفسیرقرطبی:۱۶/۱۳۱،ابن کثیر: ۷/ ۲۳۷، شرح مسلم للنووی:۱۸/۱۲، التذکرۃ للقرطبی:۶۵۵) بہرصورت میری رائے میں استعاراتی توجیہات کے جواز کے باوجود یہ احتیاط ضرور ملحوظ رکھنی چاہئے کہ کسی بھی ایسے موقع و محل کی تعیین کے وقت پہلے ایسی تمام صحیح روایات کو جمع کرلیا جائے اور بغور یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ دیگر روایات و احادیث میں کوئی ایسے الفاظ تو موجودنہیں جو استعارے کی وسعتوں کو محدود کررہے ہوں ۔تشبیہ مفرد کی صورت میں دریائے فرات کے مذکورہ بالا سونے کے پہاڑ کے حوالہ سے بعض روایات کا اسلوب اس سے سیال سونا (Black Gold) مراد لینے سے مانع نظر آتا ہے لیکن بعض روایات نے پہاڑ کی بجائے کنز (خزانہ) کا لفظ استعمال کیا ہے گویا روایت ِحدیث میں ہی مفہوم کے اختلاف کی کچھ گنجائش نکل رہی ہے اس بنا پر تعبیر کی وسعت کا رویہ اختیار کرنے والے پر گمراہی کا فتویٰ عائد نہیں کیا جاسکتا۔ تشبیہ مرکب : البتہ اگر (تمثیل واقعہ) کے طور پرمسلمانوں کی دولت پر کفار سے لڑائیوں اور تباہی کی صورت حال سامنے رکھی جائے تو واقعات کی موجودہ حالات سے کافی حد تک مماثلت موجود ہے۔ خلیج کی موجودہ جنگ کو ’اُمّ المحارب‘ بھی قرار دیا جارہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آغازِ جنگ ہے پتہ نہیں انجام کیا ہوتا ہے؟ اللہ تعالیٰ مسلمانوں پررحم فرمائے۔ آمین! ٭ زیر نظر مذاکرہ او رکلوننگ پر ہونیوالے ایک لیکچر کی آڈیو ریکارڈنگ سی ڈی میں دستیاب ہے۔ قیمت ۵۰ روپے |