تاریخی تجزیہ ڈاکٹر صہیب حسن صلیب و ہلال کی کشمکش ؛ جنگ ِعراق کے تناظر میں صلیب و ہلال کی کشمکش کا آغاز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیت المقدس کی فتح (۶۳۶ء) سے ہوگیا تھا کہ جس وقت نہ صرف فلسطین بلکہ مصر و شام کا پورا علاقہ مسلمانوں کے تصرف میں آچکا تھا اور بازنطینی حکومت اپنے جبر و استبداد کی داستانیں تاریخ کے صفحات پر رقم کرکے اس علاقے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہورہی تھی۔ اہل فلسطین اور شام کا جوق در جوق حلقہ اسلام میں داخل ہونا مقامی صلیبی طاقتوں کے لئے آخری ہچکی ثابت ہوا لیکن یورپ کے صلیبی اس شکست کو بآسانی قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ مسیحیت کے پہلے ہزار سال کا ا ختتام ہوا تو یورپ کے عیسائی، مسیح علیہ السلام کی آمد ِثانی کے انتظار میں ارضِ مقدس کی بازیابی کا نعرہ الاپنے لگے۔ متعصب پادریوں اور جنگجو سلاطین ِیورپ کی زبانوں پر ایک ہی نعرہ تھا کہ یروشلم کو ’کافروں ‘ کے ناپاک وجود سے آزاد کرایا جائے۔ گیارہویں صدی کے نصف آخر میں صلیبیوں کا ایک طوفان اُٹھا جو خود یورپ کے ممالک میں دہشت گردی اورغارت گری کے شبخون مارتا ہوا بیت المقدس کی فصیلوں تک پہنچ گیا۔ جو اس جم غفیر کی تیرہ دستیوں کے سامنے نہ ٹھہر سکیں اور ۱۰۹۸ء کا سال اہل یروشلم کے لئے قیامت برپا کرگیا۔ خود مغربی مؤرخین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ کہاں مسلمانوں کے ہاتھوں فتح بیت المقدس جس میں انسانی جان کی عظمت کو چار چاند لگے اور کہاں صلیبیوں کے ہاتھوں بیت المقدس کا پامال ہونا جس میں خون اس کثرت سے بہا کہ شہر کی گلیاں خون کی نہروں کا منظر پیش کررہی تھیں ۔ گھوڑوں کے سموں تک نہیں بلکہ گھٹنوں تک خون ہی خون تھا۔ گو ان صلیبی جنگوں کا دورانیہ دو سو سال تک دراز ہوتا چلا گیا لیکن اُمت ِمسلمہ کا ایک مردِ مجاہد، کردستان کا |