سے پوچھ گچھ کی جانے لگی اور ان میں سے متعدد لوگوں کے سرمائے امریکی بینکوں میں منجمد کردیئے گئے تو اس خوف سے سینکڑوں مسلم تاجروں اور عرب حکومتوں کے شاہی افراد نے امریکہ سے پیشگی اپنے سرمایہ کو منتقل کرنے ہی میں عافیت سمجھی ہے، اس کا اثر ان کے بینکنگ نظام پر ایسا سخت پڑا ہے کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی، خود امریکی حکومت بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی ہے۔ اس کے علاوہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پرحملہ کے بعد عالم اسلام میں امریکی مصنوعات کے خلاف بائیکاٹ کی جو خاموش تحریک چلی ہے، اس نے بھی اپنا غیرمعمولی اثر دکھایا ہے، مشروبات میں کوکاکولا جیسی عالمی کمپنیوں نے اپنے اسٹاف میں کمی کردی ہے اور اس نے اچانک اپنے گاہکوں کے لئے مختلف انعامی اسکیموں کے اعلان کے ذریعے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ۱۱/ ستمبر کے حملہ کے بعد ان کی تجارت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ ان سب کا مجموعی اثر امریکہ کی اقتصادی حالت پر جو پڑا ہے، اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے جملہ اخراجات کا ۲۵ فیصد حصہ خود امریکہ ادا کرتا آرہا ہے، لیکن گذشتہ سال اپنے واجب اخراجات کا یہ حصہ اس نے اب تک ادا نہیں کیا ہے اور UN میں اپنے مستقل نمائندوں کے ذریعے یہ آواز اٹھانی شروع کردی ہے کہ اس کے اسٹاف میں تخفیف کی جائے، دوسرے الفاظ میں آئندہ سے اس مالی بوجھ کو برداشت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ غرض یہ ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں میں اسرائیل کے تئیں امریکہ کی ناز برداری کے تناظر میں اس کے خلاف عمومی رائے عامہ کو ہموار کرنے کی جو کوششیں مختلف تحریکوں اور تنظیموں کی طرف سے کی جارہی تھیں ، اس نے دس سال میں وہ کام نہیں کیا اور اپنا اثر نہیں دکھایا جتنا ۱۱/ستمبر کے واقعات کے بعد مسلمانوں کے ساتھ اس کے سلوک نے کیا ہے۔ اس طرح دعوتی نقطہ نظر سے اس ناگہانی حادثہ نے مسلمانانِ عالم کو مثبت دعوتی فائدہ ہی پہنچایا ہے، اب یہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ خدا کی طرف سے ان کے لئے فراہم کئے جانے والے اس دعوتی موقع سے فائدہ اٹھانے میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں ۔ ٭٭ |