امیر ابن امیر، صلاح الدین ایوبی اپنی جاں نثار سپاہ کے ساتھ نواسی سال کے بعد سن ۱۱۸۷ء میں بیت المقدس کو صلیبیوں کے شکنجہ سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوگیا۔ انہی صلیبی جنگوں کے دوران فرانس کا شاہ لوئی نہم کچھ عرصہ مسلمانوں کی قید میں رہا، زرِ فدیہ دے کر رہائی نصیب ہوئی۔ وطن پہنچ کر اس نے اپنے ابناے وطن سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’اگر تم مسلمانوں کو شکست دینا چاہتے ہو تو ہتھیار کا خیال چھوڑ دو کہ تم نے اسے استعمال کرکے دیکھ لیا ہے، ہاں ان کے عقیدے پر ضرب کاری لگاؤ تاکہ ان کی آئندہ نسلیں پکے ہوئے پھلوں کی طرح تمہاری جھولی میں آگریں ۔‘‘ شاہِ فرانس کی اس نصیحت پر سلاطین یورپ نے تو کان نہیں دھرا لیکن بیسویں صدی کے عیسائی مبلغین نے اسے یقینا حرزِ جان بنائے رکھا۔۱۴۹۲ء میں سقوطِ غرناطہ کے ساتھ سرزمین اَندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اختتام کو پہنچی۔ فرڈیننڈ اور ایزابیلا کی متعصب حکومت نے مسلمانوں کا جینا دو بھر کردیا۔ صرف ایک سو دس سال کے عرصہ میں ہسپانیہ مسلمانوں کے وجود سے خالی ہوگیا۔ بیشتر افریقہ کے مسلم علاقوں (مراکش ، الجزائز، تیونس، لیبیا اور مصر) ہجرت کرنے پر مجبور کردیئے گئے اور جو باقی بچے وہ یا تو تلواروں کی نوک چڑھے یا زبردستی عیسائی بنا لئے گئے۔ جامع مساجد کو گرجوں اور کنیساؤں کا لبادہ اوڑھا دیا گیا۔ اسی سال دو مہم جو ملاح نئی دنیا کے انکشاف کے لئے ساحل سپین (اندلس)سے روانہ ہوئے، واسکوڈی گاما اور کولمبس۔ لیکن کیا یہ دونوں صرف نئی وسعتوں کی تلاش میں نکلے تھے؟ واسکوڈی گاما نے ہندوستان کے مسلم دور کو دیکھنے کے بعد یہ رپورٹ دی تھی: ’’ آج ہم نے اسلام کی گردن کو طوق پہنچا دیا ہے۔ اب صرف رسی کھینچنے کی دیر ہے، یہ دم گھٹ کر یا سسک سسک کر مرجائے گا۔‘‘ کولمبس نے شمالی اور جنوبی امریکہ کے نقطہ اتصال کے بالمقابل بارباڈوس کے ایک جزیرہ پر قدم رکھا تھا کہ جس کی بنا پر اسے اکتشافِ امریکہ کا اعزاز دیا جاتا ہے۔ کولمبس نے |