Maktaba Wahhabi

83 - 95
’’ليس عليک منها بأس يا أميرالمؤمنين، إن بينک وبينها بابا مغلقا‘‘ امیر المومنین! آپ کو ان فتنوں سے پریشان ہونے کی کیا ضرورت؟ آپ کے اور ان فتنوں کے درمیان تو بند دروازے کی رکاوٹ ہے۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ’’ايکسر الباب أم يفتح؟‘‘ وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا کھولا جائے گا؟ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اسے توڑا جائے گا۔ بعد میں مسروق تابعی نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ دروازے سے آپ کی کیا مراد تھی؟ تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عمر فاروق رضی اللہ عنہ ۔ (بخاری؛۷۰۹۶) گویا اس روایت میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے دروازے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اور دروازے کے ٹوٹنے سے ان کی شہادت کا استعارۃً مراد لیا ہے۔ اسی طرح اس حدیث ’’لا تقوم الساعة حتی تضطرب اليات نساء دوس علی ذي الخلصة‘‘ (بخاری) میں تضطرب إلیات نساء بھی ذي الخلصۃ بت کی زیارت اور طواف سے استعارہ ہے ۔ ان تمام احادیث اور ان سے ملتی جلتی دیگر احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جو جوامع الکلم کی نعمت عطا ہوئی تھی، اس میں جوامع الکلم کی ایک شکل استعاراتی اسلوب بھی تھا اور عربی ادب میں اس کا استعمال بہرحال موجود ہے جس سے مجال انکار نہیں مگر اصل مسئلہ استعارہ کی حدود و شرائط کا ہے مثلاً دجال کے بارے میں جب ایسی صریح و صحیح احادیث موجود ہیں جو دجال کی شخصیت کو متعین کردیتی ہیں تو پھر اس سے استعاراتی طور پر کوئی قوم مراد لینا سراسر غلط ہے مثلاً دجال کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’رجل جسيم أحمر جعد الراس أعور العين کأن عينه عنبة طافية … أقرب الناس به شبها ابن قطن‘‘ (بخاری؛۷۱۲۸) ’’(مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ دجال) سرخ رنگ کا موٹا شخص ہے، اس کے بال گھنگریالے، اسکی آنکھ کانی اور ایسے تھی جیسے پھولا ہوا انگور ہوتا ہے۔ اسکی شکل و صورت عبدالعزیٰ بن قطن (دورِ جاہلیت میں فوت ہونے والا ایک شخص) سے بہت ملتی تھی۔‘‘ اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ : ’’وإن بين عينيه مکتوب کافر(ک ف ر)‘‘ (بخاری؛۷۱۳۱)
Flag Counter