کے جذبہ کی تسکین کے لئے دنیاوی اُمور میں تجربات کا میدان کھلا ہے لیکن وحی الٰہی کو اس جذبہ کی تسکین کے لئے تجربات کا تختۂ مشق نہیں بنایا جاسکتا۔ دوسرے سوال یہ کہ اس واقعہ کے حقیقت میں رونما ہونے کی صورت میں اس کی تعیین کیسے ہوگی، کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ چونکہ امت بحیثیت ِمجموعی معصوم ہے، یعنی پوری اُمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’لا تجتمع أمتی علی الضلالة‘‘ (میری اُمت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی) کے بموجب گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا جب کسی پیش گوئی سے متعلقہ واقعہ حقیقت میں ظہور پذیر ہوگا تو اس وقت مسلمانوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے والے علما اور اہل حل و عقد اس کی حقیقت و تعین پر مجتمع ہوجائیں گے۔ اب اگر اتفاق نہیں ہوتا تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ نے اُمت کو معصوم بنایا ہے اور تمام اُمت ایک غلط چیز پر جمع نہیں ہوسکتی۔ وضاحت طلبی اس پر جناب عمار ناصر نے پھر نکتہ اٹھایا کہ اُمت کا آخر ِکار ایک واقعہ کی حقیقت پر جمع ہوجانا ان کے ابتدائی اختلاف کو مانع نہیں ۔ لازمی طور پر پہلے اس پر بحث و مباحثہ ہوگا یا رائے زنی ہوگی۔ جس پر اختلاف بھی ہوگا پھر آخر کار اس پر اتفاق ہوجائے گا اور غالباً اثری صاحب کی سابقہ گفتگو کا بھی یہی حاصل ہے۔ حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب پیش گوئیوں کے بارے میں مذکورہ بالا مکالمے کے بعد حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب نے اراکین مجلس کی مذاکرے کے مرکزی سوال (استعارے کی حدود) کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے فرمایا کہ جہاں تک پیش گوئیوں کے بارے میں ظاہری الفاظ کا تعلق ہے تواس میں ہمیں صحابہ کرام کے اندا ز سے یہی روشنی ملتی ہے کہ صحابہ کرام عربی زبان کے اُسلوب استعارہ کے مطابق کسی چیز کے تعین سے گریز نہیں کرتے تھے بلکہ گفتگومیں اسلوبِ استعارہ کو بھی مدنظر رکھا کرتے تھے مثلاً صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فتنوں کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے متعلق سوال کیا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: |