پر منطبق کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پہلا سوال یہ کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقبل کے متعلق جو پیش گوئیاں کی تھیں ، ان کا مقصد کیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ مستقبل کے حوالے سے آپ نے جو کچھ بیان فرمایا ہے، ان مین سے اکثر چیزوں کا تعلق غیبی امور سے نہیں ۔ غیبی امور میں سے جنت و جہنم، صفاتِ الٰہی وغیرہ سے متعلقہ کیفیتیں اگر ہمیں نہ بھی بتائی جائیں توہمارے ایمان بالغیب پر کوئی زد نہیں پڑتی لیکن پیش گوئیوں کامقصد دراصل انسان میں مستقبل کو جاننے کی جستجوکے فطری جذبہ کی تسکین ہے اور پیش آمدہ واقعات کے بارے میں خوشخبری یا احتیاط کے پہلو اختیار کرنے کا رویہ بھی مطلوب ہے، لہٰذا اس فطری جذبہ جستجو کی بنا پر مستقبل کی پیش گوئیوں کے بارے میں کسی واضح تعبیر و تعیین کی گنجائش ہونی چاہئے۔ دوسرا سوال انہوں نے یہ کیا کہ اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ قرائن و آثار کی روشنی میں ہم پیش گوئیوں کو کسی خاص صورتحال پر منطبق نہیں کرسکتے تو جب متعین اشخاص و اقوام یا کوئی واقعہ حقیقت میں رونما ہوگا مثلاً امام مہدی کا ظہور وغیرہ تو اس کا تعین کیسے ہوگا؟ کیا اس وقت ہاتف ِغیبی کی طرف سے کوئی باقاعدہ اعلان ہوگا کہ فلاں شخص امام مہدی ہے؟ آخر اس کا تعین بھی تو قرائن و احوال کی روشنی ہی میں ہوگا…! مولانا مسعود عالم کا جواب مولانا مسعود عالم نے ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ جہاں تک یہ خیال ہے کہ مستقبل کو جاننے کے لئے انسان میں جستجو کا فطری جذبہ موجود ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے علم کو دنیاوی اُمور کے اندر ترقی دینے کی جستجو کرتا ہے تو اس کی ضرور حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ لیکن وحی پر مبنی اُمور کے بارے میں اس مفروضہ کی بنیاد پر کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ کڑیاں تو بتا دی ہیں اور باقی خالی جگہ کو انسان اپنے جذبہ جستجو سے پر کرکے ان کڑیوں کو باہم ملا سکتا ہے لہٰذا ان غیبی امور کے بارے میں رائے زنی شروع کردی جائے، یہ بات غلط ہے اور قرآن مجید کی اس آیت ﴿وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَکَ بِهٖ عِلْمٌ﴾کے منافی ہے۔ علم میں توسع |