صورتحال کو معمول پر لانے کے لئے وضاحت فرمائی کہ جب اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم پیش گوئیوں کی تعیین کے حوالہ سے ایسی احتیاط ضروری نہ سمجھتے تھے تو آخر ہمیں احتیاط کی اتنی کیا ضرورت ہے؟ پھر اگر پیش گوئیوں سے صورتحال کا تعین کرنا ہی غلط قرار پائے تو ان کا فائدہ ہی کیا ہے؟ اس سلسلے میں انہوں نے قرآن میں مذکور یاجوج ماجوج اور صحیح احادیث میں مذکور امام مہدی اور دجال وغیرہ کے حوالہ سے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کے بہت سے اوصاف بیان فرمائے ہیں جن کامقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا تعین کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ ان پیش گوئیوں کا غیر یقینی اور غیر حتمی انداز سے تعین کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ قرائن وآثار اگر واضح ہوں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی ان کا تعین کیا ہے اور اس تعین میں ان کا اختلاف بھی ہوتا رہا ہے۔مثلاً جب ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہم میں سے سب سے پہلے (آخرت میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون ملاقات کرے گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ أطولکن يدًا ’’وہ جس کے ہاتھ تم میں سے سب سے زیادہ لمبے ہیں ۔‘‘ اس پر ازواجِ مطہرات نے لکڑی سے اپنے اپنے ہاتھ ماپنا شروع کردیئے۔ چنانچہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا ان میں سب سے لمبے ہاتھوں والی نکلیں ۔مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کی بجائے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سب سے پہلے فوت ہوئیں تو اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آنحضرت کی پیش گوئی کے بارے میں ہمیں معلوم ہوا کہ لمبے ہاتھوں والی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ جو زیادہ صدقہ کرنے والی ہوگی اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو صدقہ کرنا بڑا محبوب تھا۔ (بخاری ؛۱۴۲۰) اسی طرح دجال والی پیش گوئی کے حوالہ سے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف رونما ہوا، بعض صحابہ ابن صیاد ہی کو دجال قرار دیتے تھے جبکہ بعض کاموقف اس کے برعکس تھا۔ اسی طرح الأئمۃ من قریش والی روایت کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ اس سے خاص قریشی نسل مراد نہیں بلکہ اس دور کے ایسے ممتاز لوگ مراد ہیں جنہیں معاشرے میں قریش جیسا دینی / سماجی مقام حاصل ہو۔اور یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کو تسلیم کرنے کے باوجود وہ اپنے بعد خلیفہ نامزد کرنے کے موقع پرحسرت سے فرماتے تھے کہ آج اگر سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ زندہ |