Maktaba Wahhabi

77 - 95
اس کے بعد انہوں نے حالات پر ان پیش گوئیوں کے انطباق کے پہلوسے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مستند خبروں کی روایات کو جمع کرکے ان کی رعایت کرتے ہیں اور بعض لوگ ان پیش گوئیوں کو تمثیل اور استعارہ کے رنگ میں سمجھتے ہیں ۔ لیکن ایمانیات کے بارے میں سلف کا نقطہ نظر ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ انہوں نے ظاہری الفاظ کا اعتبار کیا اور ایمانیات کے اندر تمثیل اور استعارہ کو برداشت نہیں کیا، لہٰذا ہمیں بھی وہی طریقہ اختیار کرنا چاہئے جو صحابہ اور سلف تابعین نے اختیار کیا،کیونکہ اسی دور کا فہم حجت ہے ، وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو بہترسمجھتے تھے اور یہ کہناکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے فہم میں غلطی ہوسکتی ہے، درست نہیں اور پھریہ چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام لوگوں کے ایمان اور یقین کے لئے بتائی ہیں اور عام لوگوں کے لئے شارع کا طریقہ تمثیل اور استعارہ کا نہیں ہے۔ لہٰذا اُنہیں ظاہری الفاظ میں ہی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ بعض لوگوں نے تاویل کے ذریعے کھینچ تان کر مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی، لیکن بعد کے واقعات نے اسے غلط ثابت کردیا۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کہ ’’دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نکلے گا…‘‘ اب اس کے بارے میں لوگوں نے تاویلات کے سہارے پر عجیب و غریب تعبیرات پیش کی ہیں جبکہ زمینی حقائق نے ابھی تک ان کا ساتھ نہیں دیا۔ نیز انہوں نے پیش گوئیوں کو متشابہات قرا ر دینے کے نظریہ کو غلط قرا ردیا۔ اور کہا کہ ہمیں بہرحال ان پیش گوئیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے سمجھنے کی کوشش کرنا چاہئے، البتہ ان کا مصداق متعین کرنے میں اختلاف ہوسکتا ہے اور سلف میں بھی ہوا۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث يوشک أن يضرب الناس أکباد الإبل فلا يجدون أعلم من عالم المدينة کا مصداق بعض نے عمر رحمۃ اللہ علیہ بن عبد العزیز کو قرار دیا اور بعض نے سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کو اور بعض کے بارے میں ہے کہ انہوں نے کہا کہ ’’پہلے ہم فلاں کو اس حدیث کا مصداق سمجھتے تھے ،لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس سے مراد امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔‘‘ اس سلسلہ میں ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ تحقیق کے ذریعے صحیح روایات کو جمع کرکے الفاظ کا مفہوم اُجاگر کیا جائے اور تمثیلی اور
Flag Counter