کے مشرق میں بصرہ کے شہر سے آگ نکلے گی جو (ساڑھے تین سو میل کی)لمبی مسافت سے دیکھی جائے گی اور وہاں کے چرواہے اس آگ کی روشنی میں اپنے اونٹوں کو پہچان سکیں گے۔ اس وقت ساڑھے تین سو میل سے آگ کا نظر آنا، بادی النظر میں اس کا تصور بھی محال تھا۔ لیکن یہ ایک زمینی حقیقت تھی جو زبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوئی اور پھریہ واقعہ رونما ہوا، کائنات نے اس کا مشاہدہ کیا۔ لہٰذا ہمیں بھی سلف کی طرح اس بارے میں محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے اور توجیہات و تاویلات کرنے سے حتیٰ الامکان گریز کرنا چاہئے۔ اس موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوۂ ہند سے متعلقہ مشہور حدیث بھی زیر بحث آئی۔ تو مولانا نے فرمایا کہ جہادی تنظیمیں کشمیر کے حوالے سے پاک بھارت جنگ کو غزوۂ ہند کا مصداق قرار دینے میں مغالطے کا شکار ہیں ۔ اس لئے کہ مسنداحمد میں حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ کے اپنے الفاظ ہیں کہ ’’ہم ارضِ بصرہ کو ارضِ ہند سمجھتے تھے۔‘‘ مولانا نے فرمایا کہ اس روایت کو امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ’سیراعلام النبلائ‘ اور امام یعقوب بن سفیان نے اپنی ’تاریخ‘ میں بھی نقل کیا ہے اور اس روایت کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علاقہ دراصل ’ارضِ بصرہ‘ ہی کا تھا جسے صحابہ کرام ارضِ ہند سمجھتے تھے۔ اس پر تعلیق چڑھاتے ہوئے حافظ عبدالرحمن مدنی نے وضاحت فرمائی کہ کشمیر کا مسئلہ برصغیر کا داخلی مسئلہ ہے یعنی جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندوستان سے لڑنے کی پیش گوئی فرمائی تھی اس وقت پاکستان مع کشمیر ’ہند‘ کا ہی حصہ تھے، اس لئے غزوۂ ہند سے مراد پاک و ہند کی باہمی لڑائی نہیں ہوسکتی بلکہ زیادہ امکان ہندوستان کے باہر سے آنے والے جرنیل محمد بن قاسم ثقفی کا واقعہ ہے جو گذر چکا ہے۔ محمدعطاء اللہ صدیقی پیش گوئیوں کے بارے میں الہامی خبروں کی صداقت اور سائنسی توجیہات کے رویہ پر گفتگو کرتے ہوئے جناب صدیقی صاحب نے سائنس اور اسلام کے تصادم کے بارے میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تصور غلط ہے کہ سائنس اور اسلام کے درمیان تصادم |