Maktaba Wahhabi

74 - 95
کی تھی اور یہ اس لئے ہوا تھا کہ ایسے کرنے والوں کے سامنے صرف اس دور کا تناظر تھا جبکہ مستقبل کے قیامت تک کے تناظر اور امکانات کو بھی سامنے رکھا جائے تو تاویل وتعبیر میں اس قدر آگے جانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ احادیث ِنبویہ علی صاحبھا التحیۃ والسلام کا ظاہری مفہوم سرے سے اس میں تحلیل ہوکر رہ جائے ۔ ایک مسئلہ یہ بھی ذہنوں کے لئے پریشانی کا باعث بن جاتاہے کہ پیش گوئیوں کا ظاہری حالات میں پورا ہونا ممکن نظر نہیں آتا تو اسے عقلی طور پر قابل قبول بنانے کے لئے تاویل کا سہارا لینا مناسب سمجھا جاتا ہے جو ایک غیر ضروری محنت ہے کیونکہ مستقبل کے اِمکانات کا دائرہ حال کے امکانات سے کہیں زیادہ وسیع اور مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ اور اس میں یہود کی ابتدائی کامیابیوں کا جن روایات میں تذکرہ ملتا ہے، آج سے ایک صدی قبل کے احوال و ظروف میں اس کا کوئی اِمکان نظر نہیں آتا تھا لیکن آج اس کا وقوع بھی ہوچکا ہے۔ اس لئے میرا اپنا ذوق تو یہی ہے کہ پیش گوئیوں کو ان کے اصل مفہوم ہی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اپنے دور کے حالات پر اس کا ہر حال میں اطلاق کرنے یا ان کے بظاہر ممکن نہ ہونے کو حتمی سمجھنے کی بجائے مستقبل کے پردۂ غیب میں مستور امکانات کے حوالے کردیا جائے۔ البتہ اس باب میں اہل علم کے بحث و مباحثہ اور تاویل و تعبیر کے حق سے انکار نہ کیا جائے۔ بحث و مباحثہ اور تعبیر و تاویل کا یہ عمل گذشتہ چودہ صدیوں سے جاری ہے اور اب اس پر قدغن لگانے کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔‘‘ مولانا ارشاد الحق اثری مولانا ارشاد الحق اثری نے مولانا زاہد الراشدی کی تحریر کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو فہم و بصیرت عطا کی ہے، اس پر پابندی عائد نہیں ہونی چاہئے تاہم اہل علم کو یہ احتیاط ضرور ملحوظ رکھنی چاہئے کہ وہ وہی موقف اختیار کریں جو سلف کے ہاں پسندیدہ تھا۔ موصوف نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زمینی حقائق کے متعلق بہت سی روایات مروی ہیں لیکن صحابہ کرام ، تابعین اور بعد کے ادوار میں کسی نے بھی ان میں رائے زنی کی جسارت نہیں کی بلکہ وہ ان کے وقوع کا انتظار کرتے رہے۔ مثلاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی کہ مدینہ
Flag Counter