یا بلند ہونے کا معنی تو واضح ہے مگر اللہ تعالیٰ کے مستوی علی العرش ہونے کی حالت و کیفیت کیسی ہے، اس کے بارے میں (شارع کی طرف سے) ہمیں کچھ نہیں بتایا گیا۔اس لئے اللہ تعالیٰ کے مستوی علی العرش ہونے پر ایمان لانا تو واجب ہے مگر اس استواء کی حالت و کیفیت اور کنہ و حقیقت کا سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘ انہوں نے فرمایا کہ بعض سورتوں کے آغاز میں حروفِ مقطعات بھی متشابہات کی اقسام سے ہیں ، موصوف کے بقول پیش گوئیوں کوبھی ایسے ہی خیال کرنا چاہئے۔ مولانا زاہد الراشدی مولانازاہد الراشدی صاحب مصروفیت کی بنا پر خود تو تشریف نہ لاسکے تاہم انہوں نے مندرجہ ذیل تحریر بھیج کر اپنا نکتہ نظر پیش کیا : ’’جس مسئلہ پر مذاکرہ کا انعقاد ہورہا ہے، اس کے تمام پہلوؤں پرکچھ عرض کرنا تو سردست مشکل ہے البتہ ایک دو اُصولی باتوں کے حوالے سے مختصراً گزارش کررہا ہوں کہ قرآن کریم یا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کا اپنے دور کے واقعات پر اطلاق یا انہیں مستقبل کے حوالہ کرکے ان کے وقوع کا انتظار خود حضرات صحابہ کرام کے دور میں بھی مختلف فیہ رہا ہے۔ سورۃ الدخان میں ’دخان‘ اور البطشۃ الکبرٰی کی پیش گوئیوں کا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اپنے دور کے حالات پر اطلاق کرتے ہیں اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما انہیں قیامت کی نشانیوں میں شمار کرکے اپنے دورمیں ان کے وقوع کی بات قبول نہیں کرتے۔ اس سے اصولاً یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پیش گوئیوں کے بارے میں تعبیر و تاویل کا دامن اس قدر تنگ نہیں ہے اور اہل علم کے لئے اس کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔ اصل اُلجھن ہمارے ہاں یہ رہی ہے کہ ہر دور میں اس نوعیت کی پیش گوئیوں کو اپنے دور کے اَحوال و ظروف کے دائرے میں رہ کر سمجھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ وہی بات اب بھی ہورہی ہے جبکہ مستقبل کا اُفق بہت وسیع ہے مثلاً امام مہدی کے ظہور کی روایات کا اطلاق بعض اہل علم نے حضرت عمر رحمۃ اللہ علیہ بن عبدالعزیز پر بھی کرنے کی کوشش |