تو دوسرے نے اسرائیل کودجال کہہ دیا۔ بلکہ بعض حضرات نے اسرائیل کے مخصوص طیارے KFRکو ثبوت کے طور پرپیش کردیا کہ بعض روایاتِ حدیث میں دجال کے ماتھے پر ’ک ف ر‘ مکتوب ہوگا، لہٰذا اس سے مراد یہی طیارہ اور دجال سے مراد یہی اسرائیل ہے۔ سطورِ بالا میں مابعد الطبیعاتی اُمور اور پیش گوئیوں میں امتیاز واضح کرنے کے بعد ایک مسئلہ استعاراتی اُسلوب کا باقی رہ جاتا ہے کہ آیا پیش گوئیوں میں مجازِ استعارہ ممکن ہے یا نہیں ؟ حالیہ مذاکرے کا بنیادی نکتہ یہی تھا۔ علاوہ ازیں معجزات کے حوالے سے دوسرا مسئلہ یہ بھی زیر بحث آیا کہ معتزلہ تو انکارِ معجزات کے لئے ان کی مادّی توجیہ کا رجحان رکھتے تھے جو سراسر غلط ہے مگر ان کے برعکس دورِ حاضر میں سائنسی ترقی کی و جہ سے پیش آنے والے مواصلاتی معاملات جو اب معمول کا حصہ بن چکے ہیں مگر ان سے ملتے جلتے واقعات جو ماضی میں مادّی اسباب کے بغیر انبیا کے ہاتھوں رونما ہوئے اور خرقِ عادت ہونے کی وجہ سے معجزہ قرار پائے تھے، تو کیا دورِ حاضر میں ان کے مشابہ اور معمول کا حصہ بننے والے واقعات سے ان گذشتہ معجزات کی حیثیت پر تو فرق نہیں پڑتا؟ مثلاً معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مادّی اسباب کے بغیر پل بھر میں آسمانوں کا سفر کر آنا اس دور میں بلا شبہ معجزہ ہی تھا مگر اب سائنسی پیش رفت کی بدولت مصنوعی سیاروں اور راکٹوں کے ذریعے دور فضاؤں میں پہنچنے اور وہاں کی خبریں پل بھر میں حاصل کر لانے نے جب ’سفر آسمان‘ کو خرقِ عادت رہنے ہی نہیں دیا تو کیا موجودہ دور کیلئے بھی انہیں معجزہ ہی سمجھا جائے گا؟ یا اس کی کوئی سائنسی توجیہ کی جائے گی…؟ مذاکرے کے میزبان مجلس التحقیق الاسلامی کے ڈائریکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی (مدیراعلیٰ ماہنامہ ’محدث‘ لاہور) تھے۔ انہوں نے شرکاے مذاکرہ کے سامنے انہی دو سوالات کو پیش کرکے اہل علم کو اظہارِ خیال کی دعوت دی اور شرکائے مذاکرہ کو مندرجہ بالا موضوع پر مرتکز رکھنے کے لئے یہ بھی واضح کردیا کہ درایت ِحدیث کے حوالے سے آج کل جو بحثیں استخفافِ حدیث کی صورت میں پیش آرہی ہیں ، اس پر ان شاء اللہ ایک باقاعدہ علمی مذاکرے کا اہتمام مستقبل قریب میں کیا جائے گا۔ تاہم اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ قرآنِ مجید کے |