ممکن ہے لہٰذا اس کی توجیہات میں ما بعد الطبیعاتی امور (اسماء و صفات الٰہی) کی طرح کیفیت و تفصیل سے نہ اجتناب ضروری ہے اور نہ ہی خوابوں کی تعبیر کی طرح اشاراتی انداز مناسب ہے۔ البتہ بہت پہلے ماضی کے واقعات کے جس طرح اندازے غلط ہوسکتے ہیں ، قربِ قیامت پیش آنے والے مستقبل کے واقعات و اشخاص کے تعین میں بھی ایسی مشکلات پیش آسکتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بسا اوقات استعاراتی زبان اختیار فرمائی مثلاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موت کو فتنوں کا دروازہ کھلنے سے تشبیہ دی اور حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ نے بھی اس دروازہ کے ٹوٹنے سے شہادتِ عمر رضی اللہ عنہ کا استعارہ مراد لیا۔ اسی طرح مشابہت کی ایک قسم تمثیل ہوتی ہے جسے ’تشبیہ ِمرکب‘ بھی کہتے ہیں یعنی پورے واقعہ کی واقعہ سے مثال پیش کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ ضرب الامثال کا ترجمہ دوسری زبان میں کرتے ہوئے واقعات کے اجزاء بسا اوقات بالکل بدل جاتے ہیں جیسے ’جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں ‘ کا انگریزی ترجمہ Barking dogs seldom bite بالکل درست ہے۔ البتہ پیش گوئیوں کا معاملہ بسا اوقات معجزات اور کرامات سے خلط ملط ہوجاتا ہے، واقعتا ماضی اور مستقبل میں پیش آنے والے واقعات اگر معجزات کی نوعیت کے ہوں تو وہ بھی مابعد الطبیعاتی اُمور کا حصہ ہیں ۔ لیکن تمام پیش گوئیوں کے بارے میں یہ فرض کرلینا کہ وہ معجزات وکرامات کی قبیل ہی سے ہیں ، درست رویہ نہیں ہے۔ چونکہ دورِ فتن میں عام لوگوں کاایمان متزلزل ہوجاتا ہے، اس لئے پیش گوئیوں کے بارے میں اہل علم بھی اِفراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ فتنۂ انکار حدیث کے فروغ کی وجہ سے بعض منکرین جہاں خروجِ دجال ، ظہورِمہدی اور نزولِ مسیح وغیرہ سے متعلقہ صحیح احادیث کو محض افسانہ قرار دیتے رہے ہیں ، وہاں بعض حضرات قرآن و حدیث کی ان صحیح اخبار و روایات مثلاً سد ِسکندری، یاجوج وماجوج اور دابۃ الارض وغیرہ کے بارے میں اشاراتی تفسیر کا انداز اپنائے ہوئے ہیں ۔ چنانچہ وہ ہر اس طاقت کو بھی دجال قرار دینے سے نہیں چونکتے جو فتنہ وفساد کا منبع اور مسلمانوں کے لئے تباہی و بربادی کا سبب بنے۔ لہٰذا کسی نے امریکہ کو دجال قرار دیا |