نے اس بحث میں اپنے ایک علمی مراسلہ کے ذریعے بھی حصہ لیا۔ مابعد الطبیعاتی (غیبی) اُمور کے بارے میں بذریعہ وحی (قرآن و حدیث) حاصل ہونے والی خبروں کے بارے میں صحابہ کرام اور ائمہ سلف کا موقف معروف ہے کہ وہ نہ تو فوضویہ کی طرح ایسی خبروں کی عام تفہیم و تشریح سے گریز کرتے ہیں اور نہ ہی ایسی تفسیر و تاویل گوارا کرتے ہیں جس سے ان کی حقیقت کا تعطل لازم آئے۔ برزخی اُمور کے علاوہ جنت و دوزخ اور اسماء و صفاتِ الٰہی (غیبی اُمور) میں ان کا موقف یہی ہے جیسا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ایک سوال پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے مگر اس استوا کی کیفیت کیا ہے؟ توامام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ ’’الکيف غير معقول والاستواء غير مجهول والايمان به واجب والسؤال عنه بدعة‘‘ (فتح الباری :۱۳/۴۰۶ / کتاب الاسماء والصفات : ص۴۰۸) ’’اللہ کا استواء علی العرش تو ثابت ہے مگر استوا کی کیفیت نامعلوم ہے۔ چنانچہ استواء علی العرش پر ایمان لانا ضروری ہے جب کہ اس (کی کیفیت) کے بارے میں سوال کرنا بھی بدعت ہے۔‘‘ مابعد الطبیعاتی اُمور میں سے ایک خاص صورت ’خواب‘ کی بھی ہے۔ جو سچا ہونے کی بنا پر وحی الٰہی کے مشابہ تو ہوتا ہے لیکن اس کی تعبیر و توجیہ کا میدان زیادہ تر اشاراتی ہے ۔ جیسے قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالہ سے مذکور ہے کہ انہوں نے اپنے قیدی ساتھیوں کے خوابوں کی تعبیر فرمائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی پانی اور دودھ سے متعلقہ خوابوں کی اشاراتی تعبیر فرمایاکرتے تھے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی لمبی قمیص کی تعبیر ’دین‘ سے فرمائی۔ جو پیش گوئیاں دنیا میں پیش آنے والے واقعات سے متعلق ہیں وہ صادق مصدوق حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عام خبروں کی قبیل سے ہی ہوتی ہیں ، اگرچہ وہ بہت بعد ظاہر کیوں نہ ہوں ۔ وہ اسی طرح کی خبریں ہیں جس طرح بہت پہلے گذرنے والے آدم علیہ السلام ، نوح علیہ السلام اور عاد وثمود کو پیش آنے والے ماضی کے واقعات کی خبریں قرآن و حدیث میں دی گئی ہیں لہٰذا وہ کائناتِارضی کے ہی واقعات ہیں اور اس میں سائنسی معمولات کے پیش نظر توجیہ و تعبیر بھی |