نے ترکی کی سرزمین سے انخلا کے لئے مصطفی کمال کو ان چار باتوں پرپابند کیا تھا : 1. خلافت ِاسلامیہ کو ختم کرنا اور خلیفہ کو جلا وطن کرکے اسکی املاک اور اَموال کو بحق سرکار ضبط کرنا 2. نئی حکومت اس بات کی ضمانت دیگی کہ خلافت کی حمایت میں ہر تحریک کی سرکوبی کی جائیگی۔ 3. ترکی اسلام سے اپنا رشتہ منقطع کرے گا۔ 4. سابق دستور جس میں اسلامی دفعات شامل تھیں کی جگہ ایک نیا سول دستور نافذ کیا جائیگا۔ مصطفی کمال نے اسلامی شعائر کے ساتھ جو کچھ کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن اسے ہر اس چیز سے نفرت تھی جس کا تعلق اسلام یا مسلم تہذیب سے ہو۔ اس کی ادنیٰ مثال یہ ہے کہ ایک طرف مغربی لباس کا پہننا لازم قرار دیا اور دوسری طرف طربوش (ترکی ٹوپی) کا پہننا قابل گردن زدنی!! بلکہ ہیٹ کا پہننا لازم تھا۔ چنانچہ کئی صاحب ِحیثیت لوگ اٹلی سے لاکھوں کی تعداد میں ہیٹ درآمد کرکے کروڑ پتی بن گئے۔ جہاں تک مصطفی کمال اتاترک اور اس کے اخلاف کے ہاتھوں تیار ہونے والے جیش کا تعلق ہے تو مجھے ایک معتمد ترک دوست نے بتایا کہ ترکی فوج ملحدوں کا جم غفیر ہے۔ ایک فوجی کے لئے نماز پڑھنا تو کیا اگر معلوم ہوجائے کہ کوئی جوان مسجد جاتا ہے تو اس کی پٹائی ہوجاتی ہے۔ فوج میں بھرتی کرتے وقت نوجوان کے سارے خاندان کی چھان بین کی جاتی ہے۔ اگر کسی بھی شخص کی پیشانی سجدہ کے نشان کی غمازی کرتی ہو تو ایسے خاندان کا کوئی بھی فرد فوج تک رسائی نہیں پاسکتا۔ آج کل بعض حضرات کی طرف سے یہ آواز بھی اٹھائی جارہی ہے کہ موجودہ جنگ کا صلیبیت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کا مقصد صرف تیل کی دولت کا حصول ہے لیکن یاد رہے کہ مشہور عیسائی مبلغ سموئیل زویمر نے ۱۹۳۵ء میں یروشلم کی ’تبلیغ عیسائیت کانفرنس‘ میں واشگاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ہمارا مشن مسلمانوں کو عیسائیت میں داخل کرنا نہیں ہے کیونکہ اس طرح تو انہیں عزت و تکریم حاصل ہوگی بلکہ ہمارا مشن یہ ہے کہ ہم مسلمان کو اسلام سے ایسے نکال دیں کہ اس کا اللہ سے کوئی تعلق باقی نہ رہ جائے۔ وہ صرف خواہشات کا بندہ بن کر رہ جائے، تعلیم حاصل کرے تو صرف خواہشاتِ نفس کے لئے، مال حاصل کرے تو صرف اسی مقصد کے لئے اور اونچے سے اونچے منصب تک پہنچے تو بھی اسی کام کے لئے۔ اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ |