عیسائی مبلغین عالم اسلام کی حد تک اپنے اس مقصد میں معتدبہ کامیابی حاصل کرچکے ہیں !! اور کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ عالم اسلام کے ایک حصہ پر دشمن یلغار کررہا ہے لیکن ۵۷ اسلامی ممالک کے سربراہ، کچھ مذکورہ صلیبیت کی بنا پر، کچھ بیماری ’وہن‘ (حب ِدنیا اور کراہیت موت) کی بنا پر’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنے بیٹھے ہیں اور ان کے عجزو درماندگی پران بے چارے مسلمانوں کی حالت صادق آتی ہے جو فتنہ تاتار کے موقع پر قبرستانوں ، زیرزمین نالوں اور خندقوں میں پناہ لے رہے تھے لیکن نجات کی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ کوئی بھاگ کر مکان کی چھت پر چھپ جاتا تو تاتاری اس کا پیچھا کرتے آتے اور پھر چھت کے پرنالے انسانی خون کی بارش برساتے۔ ڈر اور خوف کا یہ عالم تھا کہ ایک جگہ چند مسلمانوں کو ایک نہتے تاتاری نے آلیا اور پھر انہیں للکار کر کہا کہ ٹھہرو! میرا انتظار کرو، میں ذرا تلوار لے آؤں اور پھر تمہیں موت کا مزا چکھاؤں ۔ ان میں سے کسی کو لڑ کر جان دینے کی توفیق نہ ہوئی!! کیا یہی عالم اب قائدین اُمت ِمسلمہ کا نہیں ہے کہ یہ سوال بار بار اٹھایا جارہا ہے: ’’اب کس کی باری ہے؟‘‘یہ سوچ عنقا ہوچکی ہے کہ اس عفریت ِبلا خیز سے مجتمع ہوکر مقابلہ کیسے کیا جائے؟ اناللہ! |