قبضہ پرمنتہی ہوا۔ اس وقت کے برطانوی وزیراعظم گلڈاسٹون کا بیان اب تاریخ کی امانت بن چکا ہے۔ اس نے کہا: ’’جب تک قرآن باقی ہے، یورپ مشرق پراپنا قبضہ مستحکم کرسکتا ہے نہ خود امن و امان میں رہ سکتا ہے۔‘‘ انگریز، فرانسیسیوں کے مقابلہ میں "Slow but sure" (آہستہ مگر یقینی) پالیسی کے قائل تھے۔ اس لئے انہوں نے مصریوں کے دل و دماغ پر چھا جانے کے لئے مناہج تعلیم کو نشانہ بنایا۔ مدارس میں معلم انگریزی اور معلم عربی کی حیثیت ِعرفی میں نمایاں فرق پیدا کیا۔ نتیجتاً نئی نسل کی توقعات انگریزی سے وابستہ ٹھہریں ۔ عربی کی حیثیت ثانوی ہوکر رہ گئی۔ یہی کچھ برطانوی ہند میں عربی اور اُردو کے ساتھ کیا گیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب کہ لارنس آف عریبیہ اور ایسی گماشتہ کے لوگ عرب قومیت کے نام پرعربوں کو ترکوں سے برگشتہ کررہے تھے۔ سلطنت ِعثمانیہ اپنوں ہی کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہورہی تھی، عرب قومیت کی ناعاقبت اندیش پکار نے برطانوی جنگجوؤں کو سرزمین فلسطین، شام اور عراق میں اپنے پنجے گاڑنے کا موقع فراہم کردیا۔ بغداد، بصرہ اور فلسطین ۱۹۱۷ء تک برطانیہ کی مہیب طاقت کے سامنے سرنگوں ہوچکے تھے۔ برطانوی وزیرخارجہ لارڈ بالفور نے اسی سال جہاں عربوں سے ان کی آزاد ریاست بنانے کا وعدہ کیا تھا، وہاں یہودیوں کو ان کے ’ہوم لینڈ‘ بنائے جانے کی نوید بھی سنائی تھی۔ تیس سال کی مدتِ انتداب کے بعد جب ۱۴/ مئی ۱۹۴۸ء کی شام چھ بجے برطانیہ نے اپنے رخصت ہونے کا اعلان کیا، تویہودی تل ابیب سے اپنی ریاست قائم ہونے کا اعلان کررہے تھے۔ جسے ایک منٹ بعد امریکہ نے اور چھ منٹ بعد روس نے تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔برطانیہ نے یہودیوں سے اپنے وعدہ کا ایفا کردیا، عرب قوم پرست منہ دیکھتے رہ گئے…!! یہاں یورپ کے مردِ بیمار، تاجدارِ خلافت ِعثمانیہ، سلطان عبدالحمید ثانی کا تذکرہ کرنا مناسب ہوگا۔ خلافت ِعثمانیہ اپنے آخری دنوں میں کافی مقروض ہوچکی تھی۔ یہودیوں کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے سلطان عبدالحمید سے ملاقات کی اور یہ درخواست پیش کی کہ وہ سلطنت ِعثمانیہ |