Maktaba Wahhabi

62 - 95
نپولین نے بعض مواقع پر شریعت ِحقہ کی تعریف بھی کی کہ تو اس وقت کے ایک نامور عالم شیخ شرقاوی نے شاہِ فرانس کو للکار کر کہا کہ اگر تم دل کی گہرائیوں سے یہ بات کہہ رہے ہو تو پیرس میں اس شریعت کو نافذ کیوں نہیں کرتے؟ نپولین کا پریس عربی زبان میں سرکلر شائع کررہا تھا جس میں ایک سرکلر یہ بتا رہا تھا کہ ’’اے اہل مصر! تم قضاے الٰہی پرایمان رکھتے ہو، اس لئے نپولین کے حملہ کوتقدیر الٰہی سمجھ کر قبول کرو۔‘‘ آثارِ فراعنہ اور پھر ہر اسلامی خطہ میں ماقبل اسلام آثار کی کھدائی، بحث و تحقیق کے نام پر جاہلی تہذیبوں کے احیا کی ایک تدبیر تھی جس نے مسلمانوں میں آہستہ آہستہ ایسا طبقہ پیدا کرنا شروع کیا جو اسلامی اُخوت سے زیادہ وطنی قومیت کا پرچار کرنے لگے۔ جن کی اسلام سے وابستگی کمزور اور دورِ جاہلیت کے طواغیت سے مانوسیت بڑھتی گئی، ایسے ہی لوگوں نے نحن أبناء الفراعنۃ (ہم فرعونوں کی اولاد ہیں ) کا نعرہ لگایا اور انہی میں سے ایک نے یہ بھی کہا : أنا مصري بنانی من بنی هرم الدهر الذي أعيا الفنا ’’میں مصری ہوں ، مجھے بنانے والا وہ ہے جس نے لازوال اہرام بنائے۔‘‘ تعجب تو یہ ہے کہ یہ شعر اس حافظ ابراہیم کا ہے جس کی اسلام دوستی اس کا ا صل سرمایہ ہے۔ اُنیسویں صدی کے اوائل سے والی ٔ مصر محمد علی کی ہدایت پر اہل مصر کے لئے بغرضِ تعلیم پیرس کی راہ ہموار کردی گئی۔ شروع شروع میں طلبہ کے ہر وفد کے ساتھ ایک امام کو بھی بھیجاجاتا تاکہ وہ ان کی دینی و روحانی ضروریات کو پورا کرسکے لیکن ان ائمہ کی کیسے کایا پلٹ ہوئی، اس کی مثال شیخ رفاعہ طہطاوی کی شکل میں سامنے آئی۔ یہ صاحب جب پیرس پلٹ ہوئے تو انہوں نے سب سے پہلے خواتین مشرق کو پردے کی حدود و قیود سے آزادی دلانے کا نعرہ لگایا۔ رقص کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اس میں کون سی غیر اسلامی حرکت ہے، یہ تو جسمانی ریاضت کا نہایت ہی لطیف ذریعہ ہے۔ ۱۸۲۲ء کے بعد سے مصر میں انگریزی نفوذ بڑھنا شروع ہوا جو بالآخر ۱۸۸۲ء میں مکمل
Flag Counter