صرف ایک امریکی شہر (اوکلاہاما) میں چار سو پچاس لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ ایک اور امریکی ملک سوری نام میں پہلے سے موجود ۲۵ فیصد مسلمان بڑی خاموشی سے دعوت کا کام کررہے ہیں ، جس سے ان کے تناسب میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔گیانا کے ۱۲ فیصد اور ٹرینی ڈاڈا ٹوباگو کے ۱۱فیصد امریکی مسلمانوں کا بھی کچھ یہی حال ہے۔ امریکہ میں مسلم تنظیمیں جن کی منصوبہ بند کوششوں سے ۱۹۹۰ء تک ملک کی مختلف جیلوں میں قید پچاس ہزار سے زائد لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوچکے ہیں اور حکومت کی طرف سے گذشتہ ایک سال سے مسلسل ہراسانی کے باوجودوہ اپنے دعوتی مشن میں پہلے سے زیادہ سرگرم عمل نظر آتی ہیں ۔ امریکی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی کے ایک جائزہ کے مطابق جو مسلمان ۱۱ستمبر کے واقعہ سے پہلے آوارگی اور تعیش کی زندگی گزار رہے تھے، ان میں غیر معمولی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے، دین سے ان کی وابستگی اور رغبت میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوگیا ہے، ایک ہزار سے زائد امریکی مسجدیں پنج وقتہ نمازیوں میں پہلے سے زیادہ بھری رہتی ہیں ۔ ۱۱/ستمبر۲۰۰۱ء سے ۱۲/ستمبر۲۰۰۲ء تک ایک سال کے دوران جتنی اسلامی کتابیں بالخصوص قرآنِ مجید کے تراجم فروخت ہوئے ہیں ، اتنے پچھلے۶،۷ سال کے دوران نہیں ہوئے۔ امریکی عوام میں اسلام کے متعلق صحیح معلومات حاصل کرنے کی دلچسپی پیدا ہوگئی ہے۔ انٹرنیٹ پر مختلف اسلامی سائٹس میں جانے والے غیر مسلموں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور وہ متعلقہ اداروں کو ای میل کے ذریعے اسلام کے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کے لئے مختلف سوالات بھیج کر جوابات طلب کررہے ہیں ۔ خود امریکہ کو اس بات کا احساس ہے کہ اس کے اسلام کے متعلق غلط پروپیگنڈہ سے خود ان کی معیشت پر ناقابل یقین اثر پڑ رہا ہے، چنانچہ امریکی وزارتِ خارجہ کے تعاون و اشتراک سے کام کرنے والے شہری سفارت کاروں کے نوبل انعام یافتہ بین الاقوامی ادارہ نیشنل کونسل آف انٹرنیشنل وزیٹرس (NCIV) نے گذشتہ ماہ اس بات کا اعلان کیا ہے کہ عالمی سطح پر بالعموم اور امریکہ میں بالخصوص اسلام کے متعلق کئے جارہے غلط پروپیگنڈوں کی روک تھام کیلئے، وہ اپنے ادارہ کے ۸۰ ہزار رضا کاروں کو حرکت میں لارہے |