Maktaba Wahhabi

55 - 95
نوازی پر ان کے حکمرانوں کی خاموشی نے ان کو بے چین کردیا ہے اور اس کو خود عرب قائدین اب محسوس کرنے لگے ہیں اور دبے الفاظ میں ہی سہی، ان کی طرف سے احتجاج شروع ہوچکا ہے۔ مجموعی طورسے یہ سب حالات مغرب کے خلاف آنے والے ایک سیاسی طوفان کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں ۔ مذکورہ بالا باتوں کی روشنی میں آپ صرف ہندوستان کے حالات کا تجزیہ کیجئے۔ ہندوستانی تاریخ میں سب سے تباہ کن فسادات ملکی سطح پر بابری مسجد کی شہادت کے بعد ۱۹۹۲ء میں رونما ہوئے جس میں ہزاروں مسلمانوں کو جانی اور اربوں کا مالی نقصان ہوا، لیکن حکومت کی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ بتاتی ہے کہ مسلمانوں میں مجموعی طور پر اس کے بعد دینی، تعلیمی اور تنظیمی طور پر جو ترقی دیکھنے میں آئی ہے، وہ پچھلے پچاس سال میں نہیں آئی ہے۔ صرف پچھلے دس سال میں مسلمانوں کے تعلیمی تناسب میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ۱۹۹۲ء میں مسلمانوں کا یہ تناسب صرف ۳۳ فیصد تھا جو اب بڑھ کر ۳۸ فیصد ہوگیا ہے۔ ریاستی اور مرکزی عہدوں میں مسلمانوں کا تناسب۲ سے ۳ فیصد ہوگیا ہے، ملک گیر سطح پر مسلمانوں کی مختلف تنظیموں میں اپنے مسلکی اختلافات کے باوجود ملت کے مشترکہ مسائل پرغیر معمولی اتحاد دیکھنے میں آرہا ہے۔ مسلمانوں میں تعلیمی و اقتصادی منصوبہ بندی پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔ دینی مدارس کے قدیم نصاب و نظام میں زمانہ کے تقاضوں کے تحت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ ان کے درجنوں انجینئرنگ اور ٹیکنیکل کالجز صرف دس سال کے عرصہ میں قائم ہوگئے ہیں ۔ عراق کویت جنگ کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے خود ملک میں سرمایہ کاری اور اپنے معاشی استحکام پر توجہ دینی شروع کردی ہے۔ یہ تو ہندوستان کا حال ہے ،اگر عالمی سطح پر جائزہ لیا جائے تو حالات و واقعات اس سے زیادہ ہمت افزا ہیں ۔ ۱ ۱/ ستمبر کے واقعہ نے عالمی سطح پر مسلمانوں کے لئے پوری دنیا میں حیرت انگیز اور غیر معمولی دعوتی میدان فراہم کردیا ہے۔ کل آبادی میں ان کے چار فیصد تناسب اور پچاسی لاکھ کی مسلم آبادی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کے بعد
Flag Counter