3. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے ساتھیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا خو ف کرو۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا، پس جو ان سے محبت کرے گا وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے، وہ میرے بغض کی وجہ سے ایسا کرتا ہے۔ جو انہیں ایذا دے گا اس نے مجھے ایذا دی۔ جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی، اللہ تعالیٰ اس کو پکڑے گا۔ ‘‘ (مسنداحمد:۵/۵۴) 4. حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فاطمہ رضی اللہ عنہا جنتی عورتوں کی سردار ہیں ۔‘‘ (بخاری تعلیقا فی مناقب قرابۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و مسلم؛۶۲۶۴) 5. حضرت حسن رضی اللہ عنہ ، حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: ’’اللهم أحبهما، إنی أحبهما‘‘ (بخاری؛۳۷۴۷) ’’اے اللہ! ان سے محبت فرما! میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں ۔‘‘ 6. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کی عزت و احترام بھی حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا لازمی تقاضا ہے بلکہ عین منشاے قرآنی ہے۔ سورۃ الاحزاب آیت نمبر ۶ میں فرمایا: ﴿وَاَزْوَاجُهٗ اُمَّهَاتُهُمْ﴾ ’’آپ کی ازواج مؤمنوں کی مائیں ہیں ۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے ساتھ عقیدت و محبت کے حوالے سے مسلم امہ میں افراط وتفریط پائی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر اُمت کے دو بڑے فرقے وجود میں آگئے۔ اہل سنت اور اہل تشیع۔ اوّل الذکر اگرچہ دونوں کی محبت واحترام کے قائل ہیں ، مگر تعصب کی بنا پر اہل تشیع یہ کہتے ہیں کہ وہ اہل بیت کو ان کا جائز مقام نہیں دیتے۔ دوسری طرف اہل تشیع کبار صحابہ کرام پر(نعوذ باللہ) تبرا بازی کرتے ہیں ۔اسلامی عقائد کی رو سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، اہل بیت اور ازواجِ مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ یکساں طور پر محبت و عقیدت رکھنا لازمی ہے۔ اگر اس معاملے میں فریقین وسعت ِنظر اور وسعت ِقلب سے کام لیں تو حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر مغائرت دور ہوسکتی اور اُمت متحد ہوسکتی ہے۔ |