Maktaba Wahhabi

43 - 95
6. مسجد ِنبوی میں خواتین بھی شریک ِجماعت ہوتیں مگر ان کے لئے کوئی دروازہ مخصوص نہ تھا۔ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دروازے کے بارے میں فرمایا: ’’کاش ہم یہ دروازہ عورتوں کے لئے چھوڑ دیتے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس شدت سے آپ کی اس خواہش کی پابندی کی کہ پھر تادمِ مرگ اس دروازہ سے مسجد میں داخل نہ ہوئے۔ (……) 7. کچھ صحابہ سے بیعت کی شرائط میں یہ نصیحت بھی فرمائی کہ ’’لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔‘‘ تو انہوں نے اس شدت سے اس کی پابندی کی کہ اگر اونٹنی پر سوار کہیں جارہے ہوتے اور ہاتھ سے لگام گر جاتی تو اونٹنی کو بٹھا کر خود اپنے ہاتھ سے اس کو اٹھاتے تھے اور کسی آنے جانے والے سے نہیں کہتے تھے کہ اٹھا کر دے دو۔ (مسنداحمد:۵/۲۷۷) ’اتباع‘ کا مکمل مفہوم سمجھنے کے لئے اس مثال پر غور کریں : کوئی گاڑی کسی گاڑی کے تعاقب میں ہے، اب پیچھے والی گاڑی آگے والی گاڑی پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔ جہاں وہ تیز ہوگی، یہ بھی تیز ہوگی۔ جدھر وہ مڑے گی یہ بھی ادھر مڑے گی۔جدھر وہ آہستہ ہوگی، یہ بھی آہستہ ہوجائے گی حتیٰ کہ جہاں وہ رک جائے گی پیچھے والی گاڑی بھی رک جائے گی۔ یہ اتباع ہے اور حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا صرف اطاعت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی نہیں بلکہ اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ یہ ہماری انتہائی کم نصیبی ہے کہ ہم نے حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محض میلاد کی محفل منعقد کرنے اور نعت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرنے کی حد تک سمجھ لیا اور اطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل تہی دامن ہوگئے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کاہر پہلوغور سے پڑھیں ، سیکھیں ، اُسوۂ حسنہ پر عمل کا وہی جذبہ تازہ کریں جو قرونِ اولیٰ میں تھا۔ انہوں نے سچے جذبے، پکے عزم اور خلوصِ نیت کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی اختیار کی تو قیصر وکسریٰ کے خزانے ان کے قدموں میں تھے۔ ائمہ کرام اور بزرگوں کی عقیدت میں غلو:جس طرح اللہ تعالیٰ کی توحید اور ربوبیت میں کسی کو شریک ٹھہرانا ممنوع ہے، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واجب الاتباع ہونے میں کسی
Flag Counter