3. قلبی محبت تکمیل ایمان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ظاہری اطاعت ہی نہیں بلکہ قلبی تسلیم ورضا بھی ضروری ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے: 1. ﴿فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی يُحَکِّمُوْکَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُوْا فِیْ أنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا﴾ (النساء :۶۵) ’’نہیں ، تمہارے ربّ کی قسم یہ کبھی مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ۔ پھر جو کچھ آپ فیصلہ کریں اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں بلکہ دل و جان سے اسے تسلیم کرلیں ۔‘‘ 2. حضرت حارث بن عبداللہ بن اوس کہتے ہیں کہ ’’میں عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے پاس حاضر ہوا اور پوچھا کہ اگر قربانی کے دن طوافِ زیارت کرنے کے بعد عورت حائضہ ہوجائے تو کیا کرے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آخری عمل بیت اللہ کا طواف ہونا چاہئے۔ حارث نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مجھے یہی فتویٰ دیا تھا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں تو نے مجھ سے ایسی بات پوچھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ چکا تھا، تاکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف فیصلہ کروں ۔‘‘ (صحیح ابوداود؛۱۷۶۰) سنت کا علم ہونے کے باوجود مسئلہ دریافت کرنے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ناراضگی اس بنا پر تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو دلی رضا مندی کے ساتھ کیوں نہیں تسلیم کیا۔ ایک اور حدیث ملاحظہ کریں ۔ حضرت عروہ بن زبیر روایت کرتے ہیں کہ 3. ’’میرے باپ زبیر اور ایک انصاری میں فرہ کے مقام پر پانی پر جھگڑا ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر کو کہا کہ تم اپنے درختوں کو پانی لگا لو۔ پھر اسے ہمسائے کے باغ میں جانے دو۔ یہ سن کر انصاری کہنے لگا :کیوں نہیں ، آخر زبیر آپ کے پھوپھی زاد جو ہوئے (اس لئے آپ نے ان کے حق میں فیصلہ کیا ہے)… یہ سن کر آپ کا رنگ متغیر ہوگیا اور آپ نے زبیر کو کہا: زبیر! اپنے کھیت کو پانی پلاؤ جب تک پانی منڈیروں پرنہ پہنچ |