دیتے۔ غایت ِادب کی بنا پر کسی بھی بات میں مسابقت گوارا نہ تھی۔ دستر خوان پر ہوتے تو جب آپ کھانا شروع نہ فرماتے کوئی کھانے میں ہاتھ نہ ڈالتا۔ اگر آپ مکان کے نچلے حصے میں قیام پذیر ہوتے تو یہ خیال کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر چل پھر رہے ہیں ، انہیں ایک کونے میں اپنے آپ کو قید کرنے کے لئے کافی ہوتا۔ یہ تو تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہم لوگوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و تکریم کا طریقہ یہ ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صدقِ دل سے محبت کریں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات پر عمل کریں ، اپنی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعی اپنے لئے اُسوۂ حسنہ سمجھیں ۔جب حدیث پڑھی جارہی ہو یا سننے کا موقع ہو تو چلانا، شور مچانا منع ہے۔ حدیث کی تعظیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے۔ 2. حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی معیار … اطاعت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے اہم تقاضا اطاعت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات سے ثابت ہوتا ہے : 1. ایک صحابی رضی اللہ عنہ خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی : ’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کو اپنی جان و مال، اہل و عیال سے زیادہ محبو ب رکھتا ہوں ، جب میں اپنے گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہوتا ہوں اور شوقِ زیارت بے قرار کرتاہے تو دوڑا دوڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کرکے سکون حاصل کرلیتا ہوں ۔ لیکن جب میں اپنی اور آپ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ آپ تو انبیا کے ساتھ اعلیٰ ترین درجات میں ہوں گے، میں جنت میں گیا بھی تو آپ تک نہ پہنچ سکوں گا اور آپ کے دیدار سے محروم رہوں گا۔ (یہ سوچ کر) بے چین ہوجاتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی یہ آیت نازل فرمائی: ﴿ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُؤلٰئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّيْنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِيْنَ وَحَسُنَ اُوْلٰئِکَ رَفِيْقًا ﴾ (سورۃ النساء :۶۹) ’’اور جو لوگ اللہ اور |