Maktaba Wahhabi

35 - 95
اجر عظیم ہے۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ، ان میں سے اکثر بے عقل ہیں ۔ اگر یہ لوگ صبر کرتے تا آنکہ آپ ان کی طرف خود نکلتے تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ ‘‘ (الحجرات : ۱تا۴) ان آیات کے نزول کے بعد ایک صحابی ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جن کی آواز قدرتی طور پربلند تھی، ایمان ضائع ہوجانے کے ڈر سے گھر میں محصور ہوکربیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں دریافت فرمایا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل صورتحال کا علم ہوا تو ان کو پیغام بھجوایا کہ ’’تم اہل دوزخ سے نہیں بلکہ اہل جنت سے ہو جب کہ اس سے پہلے صحابی سے اس بارے میں استفسار کیا گیاتو انہوں نے یہ جواب دیا تھا : ’’میرا بُرا حال ہے، میری آواز ہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بلند ہے، میرے تو اعمال اِکارت گئے اور میں تو اہل دوزخ سے ہوجاؤں گا۔‘‘ (بخاری: کتاب التفسیر ؛۴۸۴۶) صلح حدیبیہ کے موقع پر جب عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مکہ والوں کی طرف سے سفیر بن کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوا تھا تو واپس جاکر اپنا چشم دید واقعہ بیان کیا جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے۔عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ کر گیا اور کہنے لگا کہ ’’بھائیو! میں تو بادشاہوں کے پاس بھی پہنچ چکا ہوں ۔ خدا کی قسم! اس نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں دیکھا کہ لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ان کے اصحاب کرتے ہیں ۔ خدا کی قسم! اگر وہ تھوکتے ہیں توان کا تھوک کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ پرگرتا ہے اور وہ اپنے منہ اور جسم پر تبرکا ًاس کو مل لیتا ہے۔ وہ جب کوئی حکم دیتے ہیں تو سب لپک کر ان کے حکم کو بجا لاتے ہیں ، وضو کرتے ہیں تو اس کا پانی ان کے لئے باعث برکت ٹھہرتا ہے اور اس کو لینے کے لئے چھینا جھپٹی کرتے ہیں ۔ وہ بولتے ہیں تو ان کے ساتھیوں کی آوازیں پست ہوجاتی ہیں ۔ وہ ان کی طرف گھور گھور کر، آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے۔ ‘‘ (بخاری؛ ۲۷۳۱،۲۷۳۲) دربارِ نبوت میں حاضری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے خاص تقریب کا موقع ہوتا، صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرتے ، بغیر طہارت کے آپ کی خدمت میں حاضر ہونا اور مصافحہ کرنا گوارا نہ ہوتا، راستے میں کبھی ساتھ ہوجاتا تو اپنی سواری کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری سے آگے نہ بڑھنے
Flag Counter